صدیق اکبر ؓ کا سہنری دورِ خلافت

پیر 31 جنوری 2022

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

صدیق اکبر ؓ کا دور خلافت اسلامی، فلاحی مملکت کا ایک مکمل نمونہ ہے۔  یہ وہ عظیم ہستی تھی جس نے فقر کی وہ مثالیں قائم کر دیں کہ کل کائنات کے چہار کونوں میں کسی بھی قرن و زماں کے انسان ابو بکر صدیقؓ جیسا خوفِ خدواندی ، تقوٰی و طہارت اور استقامت و کرامت کا کامل نمونہ تلاش نہ کر پائے گی۔آپؓ عہد اسلامی تعلیمات کا عملی مظہر اور اسلامی تعلیمات کا زریں حصہ تھا۔

آپؓ نے جس تدبر، حکمت اور عزم و استقامت سے فتنوں کا قلع قمع کیا انسانی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔
صدیق اکبرؓ کی سیرت و کردار امت کےلئے روشنی اور رہنمائی کا مظہر ہے۔ خلیفہ اول کا دور خلافت بے مثال اصلاحات سے عبارت ہے۔ آپؓ کا زمانہ خلافت نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کا عملی پیکر تھا، آپؓ نے اپنے خلافت کے زمانے میں جو بھی اقدامات اٹھائے وہ سب خاتم النبیین ﷺ کے فرمودات کے عین مطابق تھے،خاتم النبیینﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابۂ کرامؓ کے مشورے سے آپؓ کو جانشینِ رسولﷺ مقرر کیا گیا،حضرت عمر فاروق ؓ مسجد نبوی ﷺمیں تشریف لائے اورمنبر پر تشریف فرما ہوئے ۔

(جاری ہے)

آپ ﷺ  نے صدیق اکبر ؓ کا نام تجویز کیا۔ سب نے آپ ؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ بیعت عام کے بعد آپ ؓ نے اپنے پہلے خطبے اللہ اور اسکے خبیبﷺ کی  حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا،
اے لوگو! میں تمہارا امیر بنادیاگیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں اگر میں اچھا کام کروں تو تم میری مدد کرو۔اگر برا کام کروں تو مجھ کو سیدھا کردو۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے چنانچہ میں اس کا شکوہ دور کردوںگا اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے چنانچہ میں اس سے حق لوں گا۔

جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللہ اس پر ذلت کو مسلط کردیتاہے اور جس قوم میں بری باتیں عام ہوجاتی ہیں اللہ ان پرمصیبت کو مستولی کردیتاہے۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو۔ اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پرمیری کوئی اطاعت فرض نہیں ہے۔ اچھا اب جاؤ، نماز پڑھو، اللہ تم پر رحم فرمائے۔


امیرالمومنین منتخب ہونے کے اگلے روز آپ نے قصد کیاکہ اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کریں تاکہ معاشی معاملات کو انجام دیا جا سکے۔ بعد ازاں آپؓ نے جب خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنا شروع کی تو اس وقت  ہر طرف سے فتنہ ارتداد نے سر اٹھایا ، خلیفہ منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے جس فتنہ نے سر اٹھایا وہ منکرین زکوۃ کا تھا۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ ان منکرین کے خلاف جہاد کیا جائےگا کیونکہ یہ غریبوں کو ان کا حق نہیں دیتے۔

آپ نے اعلان کیا کہ تمام انسانوں کی ضروریات یکساں ہیں اس لئے سب کو یکساں معاوضہ دیا جائے اور ان کی ضروریات بیت المال سے پوری کی جائیں بعدازاں عقیدہ ختم نبوت ﷺکے تحفظ کیلئے جھوٹے مدعیان نبوت کی سرکوبی کی اور اپنے عمل سے ثابت کیا کہ عشق مصطفیٰ ﷺ اور عقیدہ ختم نبوتﷺ ایمان کی اساس ہے، اور پھر  آپ ؓ نے ان سب کا نہایت کامیابی و کامرانی سے خاتمہ کیا، تھوڑے ہی عرصے میں امن و امان قائم ہو گیا۔

  یقینایہ جانشینِ رسولﷺ کی فطری شجاعت تھی، جس کے نتیجے میںدینِ مصطفوی ﷺکو وہ عروج ملا جس کا اعلان نبی اکرمﷺ اپنی زبانِ مبارک سے کر گئے تھے۔
قارئين ! صدیق اکبر ؓ کے دور خلافت میں ِخلیفہ وقت گورنرز اور مزدور کی تنخواہ برابر ہوتی تھی۔ آپؓ نے بیت المال قائم کر کے معذوروں اور مستحقین کے سر پر دست شفقت رکھا۔ تاجروں اور مالداروں سے زکوة ادا کروائيں ، ذمیوں کو جان ومال کا تحفظ دیا اور انکے حقوق و فراٸض کا تعین کیا اور ریاست مدینہ کے اندر تمام شہریوں کو ان کا جائز مقام دیااور حسن انتظام سے تعلیمات مصطفوی ﷺکو مضبوط و مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔

آپؓ نے اپنی مکمل زندگی میں بالعموم اور جیشِ اسامہؓ کی روانگی، منکرینِ زکوٰۃ و مدعیانِ نبوت کی سرکوبی جیسے اہم امور کو بالخصوص حرزِ جان بنایا، عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا علاقہ فتح کیا، الہامی کتاب قرآن پاک کو یکجا کرکے ایک مصحف کی تشکیل دی اور تمام نام نہاد اسلام دشمن طاقتوں کو مغلوب کر کے محمدی پرچمﷺ کو سر بلند کردیا، جس کی مثال تاریخ اسلام میں ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی۔


  صدیق اکبرؓکی مدت خلافت صرف سوا دو برس ہے لیکن اللہ تعالٰی ﷻ نے اس مختصر مدت میں انہیں بے شمار برکات سے نوازا تھا یہی وجہ ہے کہ  ان کی خلافت کا بیشتر حصہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹنے میں صرف کرنا پڑا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ ملکی نظم و نسق سے غافل نہیں رہے فی الحقیقت انہوں نے اپنی قوت ایمانی ، تدبر و فراست اور عزم و ہمت کی بدولت نوزائیدہ خلافت اسلامیہ کو اتنی مستحکم بنیادوں پر قائم کر دیا
آج جبکہ اُمتِ مسلمہ ہمہ جہتی سازشوں کاشکار ہو کر کفارکے سامنے مغلوبیت کی حالت میں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کے حکمرانوں ،علماء اکرام اور عوام الناس ان سخت حالات کا مقابلہ سیرتِ صدیق اکبرؓ کی روشنی میں اسی ایمانی بصیرت و شجاعت کے ساتھ کریں،آپؓ کی حکومت شورائی حکومت تھی۔

ہر دور میں حریت وعدل کےمتلاشی،اقوام وامم کی سیاست کے لئے اس سے بہتر حکومت نہیں پاسکتے۔ ہمارے ملکِ پاکستان کے حکمرانوں کو صدیق اکبرؓکے طرز حکمرانی کو اپنانا چاہیے اور سیرتِ صدیقِ اکبرؓ سے اکتسابِ فیض کرتے ہوئے اپنے اقوال، اعمال اور احوال بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دعاہے کہ  اللہ ﷻ پاک ہمیں سیرتِ  صدیق اکبرؓ  سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں پر عزم ہوکر اسلام کی سر بلندی کے لیے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور محبتِ رسول ﷺکی خیرات سے ہمارے قلوب و ارواح کو منور فرمائے،آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :