حسد، معاشرے کا رستا ہوا ناسور!

جمعرات 11 نومبر 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

حسد کہنے کو تو  تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر بَیر، غرور و تکبر ،کینہ و بغض ،ناشکری ،جلن ، ڈاہ ،بد سگالی ور بد خواہی ،نفرت،دشمنی سموٸے ہوۓ ہے ۔ حسد عربی زبان کا لفظ جو حسدل سے بنا ہے جس کے لغوی معنی ہے کہ کسی دوسرے شخص کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے نقصان کے درپے ہونا ہے۔ اِصطلاح مہفوم  میں حسد اْن خداداد نعمتوں اور ترقیات و بلندیِ مدارج کے زوال یا ان کے اپنی طرف منتقلی کی آرزو و تمنا یا سعی و کوشش کو کہتے ہیں، جو کسی ہم پیشہ، پڑوسی یا ہم عصر کو علم وہْنر ، دولت و ثروت، عہدہ ومنصب، عزت ونام وری یا کاروبار وتجارت کے طورپر حاصل ہوئے ہوں۔

یہ نہایت رذیل اور بدترین خصلت ہے۔
حضرت سیّدنا آدم کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے حسد کرنے والا ابلیس ہے اور یہ حاسدین کا قائد ہے۔

(جاری ہے)

حضرت آدم ؑ کی اَولاد میں حسد کی آگ میں جلنے والا قابیل ہے جس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بھاٸیوں حسد کی بنا پر انہیں کنویں میں پھینک دیا تھا اور حسد ہی کی وجہ سے نبی علیہ السلام پر جادو کیا گیا
حسد نفسانی امراض میں سے ایک مہلک مرض ہے اور ایسا غالب مرض ہے جس میں حاسد اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جلتا ہے۔

حتیٰ کہ حسد کا مہلک مرض بعض اوقات اتنا بگڑ جاتا ہے کہ حاسد محسود پر ظلم کرنے جیسے انتہائی اقدام سے بھی دریغ نہیں کرتا اور حسد کرنے والا انسان تین درجوں سے گزرتا ہے ۔ سب سے پہلے اس کا دل تنگ ہوتا ہے ہر اپنے سے بہتر شخص کی تعریف سننے پر۔ پھر وہ اس کواپنے دل میں بھی کمتر جاننے لگتا ہے اور دوسروں کے سامنے بھی اس کا قد گھٹانے کی کوشش کرتا ہے۔

اور آخر میں وہ اس شخص کو نقصان پہنچاتا ہے،جسمانی اذیت سے قتل تک۔ دنیا کا پہلا قتل حسد پہ ہوا تھا‘ اور آخری قتل تک یہ جذبہ انسان سے انسان کو مرواتا رہے گا۔ یہ مہلک بیماری پست ذہن وفکر رکھنے والوں اشخاص کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ بھی حسد کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں  جسے غرور و تکبر ، کینہ و بغض ، احساس محرومی، ناشکری،.یہ جذبات و کیفیات شخص  کے دل میں دوسرے اشخاص کیلۓ تنگی پیدا کرتی ہیں
حسد کے بارے میں حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی نے کیا خوب فرمایا ہے!
حسد کی آگ میں کیوں جل رہے ہوں؟
کف افسوس کیوں مل رہے ہو؟
خدا کے فیصلے سے ناراض کیوں ہو؟
جہنم کی طرف کیوں چل رہے ہو؟
ہمارے خزاں رسیدہ مسلم  معاشرے میں حسد کس قدر سرایت کرچکا ہے کہ آپس کی محبت، خوش گوار تعلقات اور رشتے داریاں متاثر بلکہ دشمنی میں بدل جاتی ہیں اور حسد کیوجہ سے محبت، شفقت، صلہ رحمی اور ایثار وقربانی کی بیخ کنی ہوتی ہے، یہ عظیم برائیوں کا سرچشمہ اور تباہ کن نتائج کی کنجی ہے، یہ دل میں کینہ و بغض اور عدوات پیدا کرتا ہے، یہ مسلم معاشرے کو ڈھانے کیلٸے کُدال ہے،  اسی لیے تمام مذاہب نے حسد کی مذمت کی ہے اور اسے انسانیت کے لئے زہر ہلاہل قرار دیا ہے ۔

قرآن پاک اور احادیث طیبہ میں متعد مقامات پر حسد کی ممانعت آئی ہے اللہ ﷻ ارشاد فرمایا’’ پس عن قریب وہ کہیں گے، بل کہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔‘‘ ( الفتح )
ارشاد باری تعالی ہے کہ ’’کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے ان کواپنے فضل سے عطا کیا ہے۔‘‘ (النساء :۵۴ ) حسد کی خصلت سے بچانے کےلیے اللہ تعالی نے حکم فرمایا کہ ہم حاسد کے شر سے حفاظتی تدبیر کریں، اس سے اللہ کی پناہ مانگیں، اس لیے ارشاد فرمایا ”اور(میں پناہ مانگتا ہوں رب کی) حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔

“ (الفلق ۵:۱۱۳ ) اس طرح حسد کی مذمت میں نبی اکرم ﷺسے مختلف اَحادیث مروی ہیں
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اور صدقہ گناہ کو ایسے مٹا دیتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔‘‘ (صحیح ، ابن ماجہ)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ حضرت زبیر بن عوامؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’ تم میں گذشتہ اقوام کی بیماریاں لوٹ آئیں گی، جن میں سے حسد اور بغض بھی ہے اور یہ مونڈھ دینے والی ہوں گی، یہ بال نہیں، بل کہ دین کا صفایا کردینے والی ہیں۔

‘‘ (ترمذی
ایک موقع پر آپﷺ نے حسد کے متعلق ارشاد فرمایاکہ حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اﷲ تعالی کے بندے اور بھائی بھائی ہوکر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔‘‘ (صحیح بخاری) ایک حدیث میں آپﷺ کا فرمان ہے! "کہ بندہ خدا کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے” (صحیح ابن حبان)
مذکورہ بالا آیات اور احادیث  سے ثابت ہوتا ہے کہ حسد ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کا بروقت علاج نہ کیا جائے توانسان اپنی آگ میں جل جل کر راکھ ہو جاتا ہے چہرے کی خوبصورتی کے علاوہ وہ جسمانی طور پربھی بیمار ہو جاتا ہے۔

حسد سانپ کے زہر سے بھی زیادہ خطرناک ہے سانپ بھی اپنے زہر سے نہیں مرتا۔ لیکن حاسد کو حسد ختم کر دیتا ہے ۔حسد انسان کو کامیابی سے دورکردیتا ہے۔ حسد نیکیوں کو کھاجاتا ہے۔
حسد نفرت کی آگ میں جلاتا ہے۔ حسد کئی  نفسیاتی امراض کا باعث ہے جیسے غصہ، ڈپریشن، احساس کمتری، چڑچڑا پن وغیرہ، حسددشمنی  اور دشمنی فساد کی جانب لے جاسکتی ہے جس سے  گھر اورمعاشرے میں فساد پھیل سکتا ہے اس لیےدنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے حسد جیسی بیماری کو جاننا اور اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہےکیونکہ  صالح معاشرہ کی تشکیل میں حسد سب سے بڑی رکاوٹ اور معاشرے کا رستا ہوا ناسور بنتا جارہا ہے۔


لہٰذا حسد کے نقصانات بھی بہت سارے ہیں اور یہ ہمارے دین، دنیا و آخرت، شخصیت اور معاشرے پربری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ جبکہ صالح معاشرے کی تشکيل  کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد اس مہلک مرض سے محفوظ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے : ’’لوگ اس وقت تک خیر وبھلائی پر رہیں گے ، جب تک ایک دوسرے سے حسد کرنے سے محفوظ رہیں گے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ناسور سے محفوظ رکھے۔ آمین!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :