سوشل میڈیا اور قلمکاری

جمعہ 22 اکتوبر 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

دورِحاضر میں سوشل نیٹ ورکنگ / سوشل میڈیا نے ملکی اور بین الاقوامی تعلق و روابط کے حصول میں نہ صرف آسانی فراہم کی ہے بلکہ اس نے اخلاقی و سماجی معیارات کو بلند کرنے کے حوالے سے عام انسان کی ذہن سازی میں بھی اپنا موثر کردار ادا کیا ہے۔ لیکن آج کل سوشل میڈیا کا مثبت پہلو ناپید ہوچکا ہے۔ اب ہر طرف نوجوان نسل منفی و غیرمعیاری سرگرمیوں، فحش مواد اور غیر مفید و نقصان دہ پہلو کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں جو معاشرے کے لیے ناسور بنتا جارہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونیوالی ان منفی و غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکا کیسے جائے جو ہمارے معاشرے میں اقدار کی تباہی، فحش مواد کے فروغ اور فساد و انتشار پھیلانے کی وجہ بن رہی ہے؟ میرا خیال ہے کہ آپ ان تمام منفی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں سے لوگوں کو بچا سکتے ہیں اگر آپ سوشل میڈیا پر قلمکاری/ کالم نگاری کرنا شروع کریں۔

(جاری ہے)

قلمکاری /کالم نگاری ایک کلا ہے۔

قلم سے نکلے ہوئے حروف قلمکار کا بیش قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور انہیں قیمتی الفاظ سے تحریر بن جاتی ہے۔ وہ تحاریر کو کالم یادیگر ادبی اصناف میں ڈھالنے کا فن بھی رکھتا ہے۔ سب سے اہم کام وہ ان تحاریر کو کسی پلیٹ فارم یعنی اخبارات، کتاب، میگزین، رسائل و جرائد اور دیگر سوشل میڈیا ساٸٹس میں شائع کرنے کو اپنی کامیابی گردانتا ہے۔ کیونکہ یہ اپنی تحریر کے ذریعے آپ کو بہت ساری نٸی معلومات فراہم کرتے ہیں، جبکہ انکی بدولت ہمارے معاشرے تحریری تاریخ، ثقافت اور علم سے مستفید ہوتے ہیں۔

دور حاضر میں ایک قلمکار ، اپنی لکھی ہوٸی تحریروں سے نوجوان نسل کی ذہنی عکاسی کرتا ہے اور اسے سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچانے میں کارآمد ہوتا ہے۔ جب ہم کسی کالم نگار یا قلمکار کی تحریر پڑھتے ہیں تو ہمیں اس کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے، انکی تحریروں میں ان کے سوچنے کا انداز، ان کی پسند ناپسند، ان کی صداقت، جھوٹ، ایمانداری، منافقت، اور ذوق وغیرہ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔

ایک کالم نگار سب سے سےپہلے یہ سوچتا ہے کہ اسے کس موضوع پر لکھنا ہے اور کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ کس مسئلے پر توجہ راغب کرنا چاہتے ہیں اور اسکو کس طرح دیکھتے ہیں۔ اگر تحریر میں حق گوٸی ہو تو پڑھنے والا خود بہ خود قلمکار کی جانب راغب ہوتا چلا جاتا ہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے کیا خوب کہا ہے ”دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔

۔۔ پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے“۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ آپ اسی قلمکار یا کالم نگار کو پڑھنا چاہتے ہیں ،جو آپ کا پسندیدہ ہو، جو آپ کے دل کی بات لکھ رہا ہو ،جو آپ کی سوچ سے مطابقت رکھتا ہو اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن قلمکار یا کالم نگار کو ہم پڑھتے ہیں ان میں سے کسی سےملاقات نہیں ہے مگر ان کی ایک شخصیت ہمارے ذہن میں ضرور بنتی ہے، جو ان کی تحریروں ہی سے وجود میں آتی ہے۔

اب ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے؟ کہ ہم کیسے ایک اچھے قلمکار بن سکتے ہیں اور کس طرح اپنے خیالات، حساسات، اور جذبات کو تحریر کی شکل دے سکتے ہیں۔ تحریر لکھنا ایک فن ہے۔ ہمارے ذہن میں کلبلاتے موضوعات، خیالات اور جذبات کو آسان الفاظ میں ڈھال کر اس طرح تحریر کرنا کہ وہ پڑھنے والوں کے دل پر اثر کرے، یہ کوئی عام سی بات نہیں۔ اس کیلٸے ریاضت ضروری ہے، زیادہ سے زیادہ مطالعہ کی عادت اپنائیں، قوتِ مشاہدہ کو بڑھائیں، بار بار کی مشق ضروری ہے اور محنت ضروری ہے۔

آپ بہت سے قلمکار/کالم نگار کو پڑھ بھی سکتے ہیں جن میں اُم سلمہ ، ضماد ملک ، حسن ساجد ، امان الرحمان ، فضل عباس، حمزہ بن شکیل جو معلوماتی ، ادبی، سماجی مساٸل اور سیاسی تحریروں سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں اور دیگر اچھے قلمکاروں کی صحبت میں رہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ اپنے معاشرے کا مطالعہ کریں اپنے اردگرد کے لوگوں کا، اُن کو اور اُن کی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کریں، الفاظ، تشبیہات، ترکیبات خود بخود رواں ہو جائیں گی۔

شروع میں تو سیکھنے کے لیے کسی کے انداز کی پیروی کرنا مشکل لگتا ہے لیکن جب ایک بار آپ کا قلم رواں ہوجائے گا تو ان شاء اللہ آپ کا اپنا اندازِ تحریر نکھر کر سامنے آجائے گا۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ایک بہترین قلمکار کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا رہتا ہے، جو بڑے سے بڑے قلمکار کو بھی ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کی تحریر سب کو پسند آجائے، بعض لوگ آپ کی تحریر زبان دانی کے اعتبار سے دیکھیں گے، تو بعض اس کی سلاست و روانی پر توجّہ دیں گے۔

اس کے متعلق تبصرے بھی کیے جائیں گے۔ الغرض، آپ کسی بھی میدان میں قدم رکھیں، تنقید سے نہیں بچ سکتے، لہٰذا اس سے بچ کر گزرنا ناممکن ہو، تو پھر اس وجہ سے ہلکان نہ ہوں۔ میرے اور ہر قلمکار کیلٸے بہت حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کے لکھے پر تنقید کرتا ہے تو دلبرداشتہ نہ ہوں، اور اگر تنقید حسد کی بنیاد پر بے جا ہے، تو اس پر کان دھرنے کی بجائے استقامت سے اپنا کام کرتے رہیں۔

اعتراضات کب، کس پر نہیں ہوئے اور کس نے نہیں کیے؟ جو کچھ آپ دیکھتے، سنتے اور سوچتے ہیں، اپنے وہ تجربات اور مشاہدات مدنظر رکھتے ہوٸے اور لوگوں کی پروا کیے بنا ضرور تحریر کریں چاہے وہ کسی کو پسند ہو یا ناپسند ہو۔ کسی کے ناامید کرنے کے باعث لکھنا ترک نہ کیجیے اور اپنے قلم کو رواں رکھیے۔ ایک وقت آئے گا کہ آپ کا شمار بھی بہترین قلمکاروں میں ہونے لگے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :