‏استاد کا معاشرے میں کردار

منگل 13 جولائی 2021

Dr Hamza Siddiqui

ڈاکٹر حمزہ صدیقی

استاد ایک فارسی زبان کا لفظ ہے جسکے اصطلاحی معنی تو" "سکھانے والے کے ہیں ،لفظ" استاد" یہ اپنے اندر پورے معاشرے کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے۔ اس ایک شخصیت میں معاشرے کی تنزلی و ترقی پنہاں ہے، استاد کی ذات بنی نوع انسان کے لئے بیشک عظیم اور محسن ہے استاد ایک ایسا چراغ ہے، جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے استاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن اور دوستی پیغام دیتا ہے استاد ایک ایسا رہنما ہے ، جو لوگوں کو گمراہی سے نکال کر منزل ک طرف رہنمائی کرتا ہے ،جس طرح والدین کا کردار اہم ہے کیونکہ وہ اپنی اولاد کی جسمانی طور پر اس کی صحت اسکے  نشونما کا خیال رکھتے ہیں، اسی طرح استاد اپنے شاگرد کی روحانی تربیت کاانتظام اور احترام کرتاہے۔

(جاری ہے)


دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ دنیا نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے اس کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔


جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
  قارئین! اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ہی اعلی و ارفع ہے،استادکے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائناتﷻ ہیں ،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ،اور آدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔

البقرہ۔31
اسی طرح اللہﷻ نے قرآن میں نبی اکرم ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے خود رسالت مآب ﷺ نے انمابعثت معلما،مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے  فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے ۔
اور اسلام نے استادکو روحانی والدقرار دے کر ایک قابل قدرہستی ،محترم ومعظم شخصیت ، مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی۔

آپﷺ نے فرمایا:"میں تمہارےﷺ لئے بمنزلہ والد ہوں،تمہیں تعلیم دیتا ہو"
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے استاد کو  کتنی عزت بخشی ہے اسی طرح انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ استاد کو نئی نسل کی ترقی دینے، معاشرے کی فلاح و بہبود اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر وقت اپنے پیڑ پودوں کی کانٹ چھانٹ نگہداشت میں مصروف رہتا ہے اور اگر اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں اگر ذرہ برابر بھی چوک جائیں تب معاشرہ کی بنیادیں اکھڑ جاتی ہیں اور معاشرہ حیوانیت نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرتا ہے
استاد معاشرے کی عمدہ اقدار کا امین و نگہبان ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔

باپ بچے کو جہاں اپنی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے وہیں استاد بچے کو زندگی میں ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہےان اقدار کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔کیونکہ استاد علم کا گہوارہ ہوتا ہے۔ قوموں کی ترقی میں اساتذہ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔انسان کی زندگی میں استاد کا مقام ومرتبہ اہم ہوتا ہے۔ قوموں کی ترقی و بقا میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔

استاد ہی نو نہالانِ قوم کی تعلیم و تربیت کا ضامن ہوتا ہے
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا
مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
اچھے اساتذہ معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔

جن سے بہترین قومیں وجود میں آتی ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو انسانی تاریخ اساتذہ کے احترام و تکریم کی سنہری داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ کیا بادشاہ، کیا شہنشاہ کیا ولی، کیا صحابہ کرام  سبھی نے اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کی بہترین مثالیں رقم کیں،اگراساتذہ سینکڑوں مسائل اور اسباب و علل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی کوتاہیوں کا تھوڑا سابھی ادارک کر لیں تب یقیناًیہ احساس قوم و ملت کی ترقی کی جانب پہلا قدم ہوگا اور استاد معمارقوم ہوتاہے اور قوموں کی تعمیر میں اس کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔


کسی نے کیا خوب کہا ہے :
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
اس لیے انسان چاہے کوئی بھی ہو کاروباری ہو، درزی ہو، سیاستداں ہو، فنکار ہو، یا وکیل یا پھر کھیل کود سے دلچسپی رکھنے والاہو، یا مذہبی رجحان رکھنے والاہی کیوں نہ ہو ،ہر کسی کو علم کی ضرورت پڑتی ہے ۔ علم حاصل کرنے کے لئے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ والدین کے بعد اگر دنیا میں انسان کسی شخصیت کی دل و جان سے عزت و احترام کرتا ہے تو وہ استاد ہے۔

ہاں استاد!
اں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
  استاد کی تعظیم ہم پر فرض ہے اور کیوں نہ ہو، استاد ہی کی محنت کی وجہ سے انسان بلندیوں تک پہنچتا ہے، اور حکمرانی کی گدی پر جلوہ نشین ہوتا ہے۔ استاد ہی کی محنت سے وہ آسمانوں کی سیر کرتا ہے اور ستاروں کی دنیا پر کمندیں ڈالتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ استاد کے بغیر انسان اس نابینا شخص کی مانند ہے جو بغیر سہارے سفر پر نکلا ہو
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
اللہ تعالیٰﷻ ہمیں اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :