نہ گولی چلی نہ کوئی بارود پھٹا اور۔۔۔۔

جمعہ 19 جون 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

انڈیا کا ایک انگریزی روزنامہ ''دی ٹیلی گراف'' کولکتہ سے شائع ہوتا ہے۔گذشتہ روز اس بھارتی روزنامے میں ایک خبرچھپی جس کی سرخی دنیا بھر میں موضوع بحث ہے۔سرخی کچھ یوں تھی'' حقیقت سے منہ موڑنے کی بھاری قیمت''۔اسی خبر کی دوسری سرخی تھی ''ہمارے گھر میں گھس کر مارا''دراصل یہ خبر بھارت اور چین کے درمیان تبت کے عین سامنے مشرقی لداخ کے علاقے وادی گلوان میں ایکچوئل لائن آف کنٹرول پر ہونے والی اس خونریز چھڑپ کے بارے میں تھی جس میں نہ گولی چلی اور نہ ہی کوئی بارودپھٹا بس ہاتھا پائی ہوئی اور پتھرمارے گئے جس کے نتیجہ میں بھارت کے بیس فوجی مارے گئے جن میں بھارتی فوج کاایک کرنل بھی شامل تھا ۔

بعض میڈیا تیس فوجی ہلاک ہونے کی تصدیق کر رہا ہے ۔بھارت کے نیوز چینل انڈیا ٹی وی کی ایک خصوصی رپورٹ میں نیوز اینکر رجت شرما نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس جھڑپ میں بہت سے بھارتی فوجی لاپتہ بھی ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)


بھارتی روزنامہ ''دی ٹیلی گرام''اپنی اس نیوز میں نریندر مودی اور بھارتی فوج پر سوال اٹھا یا کہ چین کے فوجیوں نے ان کی سرحد کے اندر گھس کر بغیر ہتھیار استعمال کئے اپنے ہاتھوں اور زمین پر پڑے پتھرمار مار کر بیس بھارتی فوجی مار دیئے ہیں جبکہ بھارتی حکومت سب ٹھیک ہے کا راگ الاپتی رہی، اگر چینی فوجی ہتھیار اور بارود کا استعمال کردیتے تو پھر کیا صورتحال ہونی تھی ۔

بھارتی میڈیاکی اپنی حکومت پر تنقید کا آغاز تب ہی ہوگیا تھا جب چینی فوجیوں نے لداخ میں اپنے مورچے قائم کر لئے تھے ۔بھارتی میڈیا کا خیال تھا کہ چینی فوجی پیچھے ہٹ جائیں گے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ بھی جاری تھالیکن بات چیت کا عمل تب آگے بڑھتا ہے جب فریقین حق کی بات کریں اورتاریخ گواہ ہے بھارت نے ہمیشہ ہر معاملے میں دوسروں کے ساتھ حق تلفی پر مبنی رویہ رکھا ہے۔


بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد جب مودی نے چپ سادھ لی توکانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے اپنے ایک ٹویٹ میں سخت الفاظ میں نریندر مودی کے سامنے کچھ سوالات رکھے ۔راہول گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ '' اب بہت ہوچکا ،وزیر اعظم نریندر مودی کو لب کشائی کرکے بتانا پڑے گا کہ چین کی ہمت ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے اور ہمارے فوجی مارنے کی کیسے ہوئی؟ راہول گاندھی نے واضح الفاط میں پوچھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی خاموش کیوں ہیں ؟وہ کیوں چھپ رہے ہیں؟ بہت ہو چکا ہمیں بتائیں کہ سرحد پر کیا ہوا؟راہول گاندھی کے اس ٹویٹ پرآخر نریندر مودی نے اپنی خاموشی توڑدی اور براہ راست انڈین چینلز پر تقریر کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر تعزیت کرتے ہوئے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی اور پھر اوم شانتی شانتی کہہ کر اپنا تقریرختم کردی۔

مودی کی تقریر پردنیا حیران تھی کل تک خطہ کا امن تباہ کرنے پر تلا ہوا آج خود امن کی باتیں کر رہا ہے۔ بھارت کے ایک اورروزنامے کی رپورٹ کے مطابق راہول گاندھی نے اپنے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔راجناتھ سنگھ نے لداخ واقعے پر ٹویٹ کے ذریعے تعزیت کا اظہار کیا تھااس ٹویٹ میں چینی فوج کا ذکر نہ کرنے پر راہول گاندھی نے راجناتھ سنگھ سے سوشل میڈیا کے ذریعے پوچھا کہ ''آپ نے اپنے ٹویٹ میںچین کا نام نہ لکھ کر ہندوستانی فوج کی توہین کیوں کی ہے؟اظہار تعزیت کے لئے دو دن کیوں لگے؟راہول گاندھی کا کہنا تھا جب جوان ہلاک ہورہے تھے تب آپ ریلیوں کو خطاب کر رہے تھے ،کیوں خود چھپ گئے اور میڈیا کو فوج پر سوال کھڑے کرنے دیئے؟اپنے آخری سوال میں راہول گاندھی نے رجناتھ سنگھ سے پوچھا کہ کیوں بکاو میڈیا کو سرکار کے بجائے فوج کو موردالزام ٹھہرانے دیا گیا؟
لداخ چھڑپ کے واقعہ کے بعد آج نریندر مودی اپنے خطاب میں کہہ رہا ہے کہ'' ہندوستان ثقافتی طور پر امن پسند ملک ہے ،ہماری تاریخ امن و شانتی کی رہی ہے،ہندوستان پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کا متمنی رہا ہے،اس کے ساتھ ہی ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی تعاون اور دوستانہ طریقے سے کام بھی کیا ہے ،ہمیشہ ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کی تمنا کی ہے''بظاہرمودی نے ٹی وی چینلز پربڑا اچھا بھاشن دیا ہے لیکن حقیقت میں اس کا عمل اس کے بھاشن کے برعکس ہے۔

پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے در اندازیوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے،مقبوضہ کشمیر میںنہتے معصوم مسلمانوں پرظلم و بر بریت کرتے ہوئے شہیدکیا جارہا ہے،،چین کے ساتھ سہ فریقی معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے،بھارت کے مسلمانوں کی شہریت ختم کرکے ان کا استحصال کیا جارہا ہے۔یہ سب باتیں مودی کے بھاشن اور عمل کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مودی اگر واقعی خطے میں امن چاہتا ہے تو اسے ان دیرینہ مسائل خصوصا مقبوضہ کشمیر کامسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنا ہوگا تب جاکر خطے میں حقیقی امن کی راہ ہموار ہوسکے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :