پاکستان کا پہلا انڈر گراونڈ واٹر سٹوریج منصوبہ

ہفتہ 11 جولائی 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

گنجان آبادی کے اعتبار سے دنیا کے تیسرے بڑے ملک سنگاپورکے پاس آبی وسائل نہیں ہیں پھر بھی وہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے چارمختلف طریقوں پر عمل کرتا ہے یعنی ''پینے کا پانی درآمد کرکے،بارشی پانی کو ذخیرہ کرکے،استعمال شدہ پانی اور سمندری پانی کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے صاف اور دوبارہ پینے کے قابل بنا کر''۔اپنی اس حکمت عملی کوسنگاپور نے ''Four National Tap Water Strategy ''  کا نام دیاہے۔

اس منصوبے کی اہم بات یہ ہے کہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرکے اورگھریلو و صنعتی استعمال شدہ پانی کوجدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے الٹرا وائلٹ شعاعوں کی مدد سے صاف کرکے دوبارہ قابل استعمال بنایا جارہا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ دوبارہ صاف کیا گیا پانی ڈیڑھ لاکھ سے زائد لیبارٹری ٹیسٹ پاس کر چکا ہے اور اسے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے مقرر کردہ معیارات کے مطابق صاف اور پینے کے لائق قرار دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)


سنگا پور کی طرح پاکستان کو بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں پینے کے صاف پانی کے ساتھ ساتھ زراعت اور صنعت کے لئے پانی کی بے حد ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پانی کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔پاکستان میں سالانہ 760 سے 1270 ملی میٹر بارش ہوتی ہے تاہم زیادہ تر بارشی پانی بغیر استعمال کے ضائع ہو رہا ہے اگر لاہور کی بات کی جائے تو یہاں مون سون سیزن میں بارشی پانی کے نکاس اور اس کی سٹوریج کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف یہ پانی ضائع ہوجاتا ہے تو دوسری طرف اس بارشی پانی کی وجہ سے کئی جانی و مالی حادثات بھی رونما ہوجاتے ہیں۔

اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بارشی پانی کو زیر زمین ذخیرہ کرکے کئی مقاصد کے لئے استعمال میں لایاجاتا ہے ۔بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے اس طریقہ کار کواب لاہور میں متعارف کرایاگیاہے، پنجاب حکومت نے لارنس روڈلاہور میں چودہ لاکھ گیلن کاایک واٹر گراونڈ سٹوریج بنایا ہے جو پاکستان کا سب سے پہلا اور بڑا انڈر گراونڈ سٹوریج ہے جسے مزید 2 لاکھ گیلن تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

سٹوریج کے پانی کو آبپاشی ،ہارٹیکلچراور دیگر مفید مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکے گا۔پنجاب حکومت لاہور کے شہریوں کی سہولت کیلئے 11 کلومیٹر طویل ڈرین بھی بچھا رہی ہے جو بوہڑ والا چوک سے شروع ہوکر شہر کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی دریائے راوی تک جائے گی ۔انڈر گراونڈواٹر سٹوریج منصوبے اورڈرین کی تعمیر سے مون سون سیزن میں لاہور کے بیشتر علاقوں خصوصا لارنس روڈ اورمال روڈ پراب پانی کھڑا نہیں ہوگا اور جمع شدہ پانی سے دیگر آبی ضروریات پوری کی جائیں گی۔


پنجاب میں بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے چھوٹے ڈیم بنانے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔ کوہ سلیمان رینج میں بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے چھوٹے ڈیم بنانے کے لئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی ہدایت پر ماہرین نے 14 مقامات کی نشاندہی کا کام مکمل کر لیاہے۔ ان ڈیمز کی تعمیر سے نہ صرف بارشوں کے دوران طغیانی سے ہونے والے نقصان پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ علاقے کے لوگوں کو پینے کا پانی میسر آسکے گا اور فصلوں کیلئے بھی پانی دستیاب ہوگا۔


پاکستان میں بارشی پانی کے استعمال سے ہائیڈروپانک اور ایکوا پانک کے جدید طریقہ کاشت کاری کو فروغ دے کر ناصرف غذائی قلت پر قابو پایا جا سکتا بلکہ زراعت کے شعبے میں انقلاب بھی برپا کیا جا سکتا ہے۔ ایک موقر روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق زرعی سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر رائے نیاز کا کہنا ہے کہ بارشی پانی کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لئے ہائیڈروپانک ایگریکلچر کو رائج کر کے ایک ایکڑ سے عام طریقہ کاشت کے مقابلے میں سو گنا زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔

اس طریقہ کاشت کی خاص بات یہ ہے اس میں کسی قسم کی کیمیائی کھادیں یا کیڑے مار ادویات استعمال نہیں کرنی پڑتیں جس کی وجہ سے سو فیصد آرگینک خوراک کی فراہمی ممکن ہے۔ بارشی پانی کوماہی پروری بائیو فلاک کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اس پانی سے سبزیوں کی کاشت بھی کی جاسکتی ہے جسے ایکوا پانک ایگریکلچر کہا جاتا ہے جو ہائیڈروپانک ایگریکلچر سے بھی زیادہ مفید طریقہ کاشت ہے۔

بارشی پانی سے زیر زمین پانی کو ریچارج کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ پانی کے معیار میں بہتری سے ہیپاٹائٹس جیسی کئی مہلک بیماریوں سے نجات ملے گی۔پاکستان میں ہر سال موسم برسات میں بارشوں کا پانی ندی نالوں میں جا کر ضائع ہوتا تھا لیکن ملک میں چھوٹے ڈیمز کی تعمیر اور انڈر گروانڈ واٹر سٹوریج جیسے مزیدمنصوبوں سے بارشی پانی کو استعمال میں لاکر ملکی ضروریات کو کافی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :