ویکسین ہے پھر بھی پولیو ہے۔۔کیوں ؟

پیر 17 اگست 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

پولیو کی بیماری کو قدیم بیماری بھی کہا جاتا ہے ۔ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ جب دنیا میں انسانی معاشرہ وجودپایا تھا تب بھی لوگ پولیو جیسی خطرناک بیمار ی میں مبتلا تھے ۔ اس بات کا اندازہ 1365 سے 1403 قبل مسیح کی مصری کندہ کاری کو دیکھتے ہوئے لگایا گیا ہے جس میں مڑے ہوئے پاوں والے ایک مہنت (مذہبی عالم) کی تصویر کندہ تھی۔

مہنت کے مڑے ہوئے پاوں اس بات کی دلیل سمجھے جارہے ہیں کہ پولیو کی بیماری قدیم دور میں بھی تھی لیکن شاید اس بیماری کو بیماری ثابت کرنے کی صلاحیت اس دور میں کسی کے پاس نہیں تھی۔1789 میں برطانوی طبیب مائیکل انڈرووڈ نے انسانوں کے ہاتھ پاوں موڑ دینے والی اس خطرناک بیماری کے بارے میں تحقیق پیش کی لیکن پھر بھی اسے ایک بیماری کے طور پر تسلیم نہ کیا گیا۔

(جاری ہے)

مائیکل انڈرووڈ کی تحقیق کے 51 سال بعد سن 1840 میں جیک ہیین نے اسے بیماری کے طور پر تسلیم کیا۔پولیو کو بیماری کے طور پر تسلیم کرنے کے بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ پولیو کی بیماری کس قدر خطرناک ہے اس بات کا اندازہ دنیا کو ٹھیک 76 سال بعد اس وقت ہوا جب 1916 میں نیویارک میں پولیو کی وباء پہلی مرتبہ پھیلی جس کے نتیجہ میں دو ہزار تین سو تینتالیس اموات ہوئیں جبکہ امریکہ میں چھ ہزار افراد پولیو کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔


1916 سے 1951 تک پولیو کی وباء سے دنیا بھر میں ہلاکتیں ہوتی رہیں اس دوران سائنس دان اور ماہرین پولیو کی ویکسین ڈھونڈتے رہے بالاخر 1952 میں ڈاکٹر جوناس سالک نے پولیو کی پہلی موثر ویکسین بنالی۔لوگوں میں و یکسی نیشن کا عمل شروع کرنے کے ساتھ ساتھ ویکسین میں مزید بہتری کے لئے تحقیق کا عمل بھی جاری رکھا گیا۔1961 میں البرٹ سبین نے پولیو ویکسین میں جدت پیدا کرتے ہوئے زیادہ آسانی سے دی جانے والی ویکسین OPV تیار کی۔

یہ ویکسین مائع شکل میں بنائی گئی تھی جس کے چند قطرے پینے سے پولیو سے محفوط رکھنے میں مدد ملتی ہے۔1962 سے لے کر اب تک پولیو کی ویکسین کی باآسانی دستیابی کے باوجود اس بیماری کا ابھی تک دنیا سے مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوسکا۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اب یہ بیماری دنیا کے صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان میں پائی جاتی ہے ۔
پاکستان میںتحریک انصاف کی حکومت پولیو کے خاتمہ کے لئے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے۔

ملک کو پولیو فری بنانے کے لئے انسداد پولیو مہم کا انعقاد کیا جاتا ہے۔حال ہی میں 15 اگست کوصوبہ پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے لاہور میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر انسداد پولیو مہم کا افتتاح کیا۔انسداد پولیو کی یہ مہم صوبہ بھرمیں 15 اگست سے 19 اگست تک جاری رہے گی جس میں 41 ہزار ٹیمیں فرائض انجام دے رہی ہیں۔پانچ روزہ انسداد پولیو مہم میں ایک کروڑ70 لاکھ بچوں کو ویکسین پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

صوبے کے داخلی اور خارجی راستوں میں بھی بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا انتظام کیاگیا ہے۔پولیو سے بچاو کی مفت ویکسین ، گھر گھر،بس اڈوں،بازاروں،گلی کوچوں میں پولیو سے بچاو کے قطرے پلانے کی سہولت کے باوجود ملک میںاس وقت پولیو کے 64 کیس رپورٹ ہونا کتنی بڑی بدقسمتی ہے۔پاکستان میں پولیو کا خاتمہ اس وجہ سے بھی نہیں ہورہا کہ کچھ والدین اپنے بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے ذمہ داری سمجھتے ہوئے نہیں پلواتے جس کے نتیجہ میں یہ بیماری اب بھی پاکستان میں موجود ہے۔

لوگوں کو یہ معلوم نہیںکہ پولیو وائرس بہت متعدی ہے،یہ وائرس بھی کورونا وائرس کی طرح فرد کے فرد سے رابطے کے ذریعے پھیلتا ہے۔ وائرس ایک متاثرہ شخص کے گلے اور آنتوں میں رہتا ہے۔ یہ منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور ایک چھینک یا کھانسی کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ جس جگہ پولیو کا وائرس آجائے وہاں سے یہ بمشکل نکلتا ہے اسی لئے پولیو سے متاثرہ علاقوں میں اس کی ویکسین بار بار دی جاتی ہے۔

پولیو بچے کے جسم پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کو عمر بھر کے لئے معذور بنا دیتا ہے، یہاں تک کہ اس کی جان بھی لے لیتا ہے۔ اس مرض کا کوئی علاج موجود نہیںتاہم اس سے محفوظ رکھنے کے لئے پولیو ویکسین کے قطرے موجود ہیں۔ پولیو کے قطرے کسی دیوار کی اینٹوں کی طرح ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کارکنان صحت ہر مرتبہ بچوں کو پولیو کے خلاف ویکسی نیٹ کرتے ہیںکیونکہ بچہ جتنی زیادہ خوراکیں حاصل کرے گا، بچے اور اس بیماری کے درمیانیہ حائل دیوار اتنی ہی زیادہ محفوظ ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :