کرول جنگل میں انسانی درندگی کا واقعہ

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

یوں تو جنگل میں خطرناک جانوروں کا راج ہوتا ہے لیکن انسان کی درندگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب شہر ہوں یا دیہات یہاں تک کے جنگل بھی انسان کی درندگی سے محفوظ نہیں رہے۔ انسان کی درندگی دیکھ کر جانور وں نے بھی جنگل چھوڑنا شروع کر دیئے ہیں۔اب نہ جانے جانورکہاں روپوش زندگی گذار رہے ہیں۔خطرناک سے خطرناک جانور بھی وہ کچھ نہیں کرتے جو آج کل انسانی درندے کرنے لگے ہیں۔

ایسے ہی انسانی درندگی کا ایک واقعہ چند روز قبل موٹر وے پر ہوا جہاں ایک خاتون کی عصمت دری اس کے بچوں کے سامنے کی گئی۔
پولیس کی رپورٹ کے مطابق گوجرانولہ کی رہائشی خاتون کے ساتھ انسانی درندگی کا یہ واقعہ 8 اور 9 ستمبر کی درمیانی شب اس وقت پیش آیا جب خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ لاہور سے گوجرانوالہ جانے کے لیے لاہور۔

(جاری ہے)

سیالکوٹ موٹروے پر سفر کر رہی تھی۔

یہ موٹر وے حال ہی میں ٹریفک کے لیے کھولا گیا تھا۔موٹر وے پر خاتون کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہو گیااس نے مددکے انتظار میں گاڑی ایک سائیڈ پرکھڑی کرلی اور گاڑی کے شیشے بند کردیئے۔کچھ دیر بعد دو نامعلوم مسلح افراد موٹر وے کے نزدیک کرول جنگل سے نمودار ہوئے ،انھوں نے موٹر وے کی جالی کاٹی ، گاڑی کے شیشے توڑکر دروزہ کھولا اورخاتون اور اس کے بچوں کوگھسیٹتے ہوئے کرول جنگل کے اندر لے گئے ،پھران بدبختوں نے جنگل میں انسانی درندگی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ جانور اور درندے بھی اپنا منہ چھپانے لگے۔

معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں کی عصمت دری کر کے ایسے غائب ہوئے کہ ابھی تک ان کا سراغ نہیں مل رہا۔ موٹر وے پر اس سے قبل چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں سننے کو ملتی تھیں لیکن شائد یہ پہلا ایسا اندوہناک واقعہ تھا جس میں چوری کے ساتھ عصمت دری بھی کی گئی اور وہ بھی زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کے دو معصوم بچوں کے سامنے ۔یہ کیسے سنگدل لوگ تھے جو خدا کے قہر سے بھی نہیں ڈرے۔


جس مقام پر یہ وقوعہ ہوا ہے وہاں موٹر وے سڑک کے نیچے تقریبا 30 فٹ گہرائی میں جھاڑیاں ہیںاور پھر آگے جا کر کرول نامی جنگل شروع ہو جاتاہے ۔جنگل کے قریب گاوں بھی واقع ہے ۔کرول جنگل اورموٹر وے کے درمیان جالی بھی لگائی گئی ہیں تاکہ کوئی خطرناک جانور موٹر وے پر آکر حادثے کا سبب نہ بن سکے لیکن کسی کو یہ معلوم نہ تھاکہ یہ جالی جانوروں کو تو روک لے گی لیکن انسانی درندوں کوروک نہیں پائے گی۔

وقوعہ کے روز مسلح افراد نے پہلے جالی کاٹی اور پھرموٹر وے پرچڑھ کرخاتون کی گاڑی تک پہنچے۔کرول کا جنگل بڑا خطرناک اور گھنا ہے اکثر اسی جنگل کے نزدیک موٹر وے پر ڈاکوناکہ لگا کروارداتیں کرتے ہیں۔ابھی پچھلے ماہ جولائی میں اسی جنگل کے پاس تین ڈاکوناکہ لگا کر لوٹ مار کر رہے تھے کہ اطلاع پر پولیس پہنچ گئی اور ڈاکووں سے فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو ہلاک جبکہ دو ڈاکو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔


کرول جنگل کے 5 کلومیٹر تک کے علاقے میں 3 گاؤں آتے ہیں۔اسی لئے پولیس کرول جنگل سے ملحقہ گاوں میں بھی تفتیش کررہی ہے، اب تک 15سے زائد افراد کو گرفتار کر کے تفتیش کی جا رہی ہے۔اس کیس میں پولیس جدید اور روائتی طریقے سے تفتیش کرہی ہے ۔تفتیش میں گاوں کے تین کھوجی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے کھوجیوں کے ہمراہ 5 کلومیٹر علاقے میں سرچ اینڈ سوئپ آپریشن کیا جس میں 20 کے قریب مشتبہ لوگوں کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی جب کہ 7 افراد کا ڈی این اے بھی کرایا گیا۔


اب تک کی اطلاعات کے مطابق میڈیکل رپورٹ میں متاثرہ خاتون سے زیادتی کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں پولیس کی 20 ٹیمیں واقعہ کی تفتیش میں مصروف ہیں، ٹیموں نے وقوعہ سے ڈی این اے سمیت دیگر اہم شواہد جمع کرلئے ہیں جبکہ کیمروں سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرکے جیو فینسنگ بھی کرائی گئی ہے۔پولیس نے جائے وقوعہ کے اطراف میں موجود کارخانوں اور فیکٹری ملازمین کے کوائف اکھٹے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار موٹروے پر خاتون سے زیادتی کیس پر پیشرفت کا ذاتی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔پاکستان کی عوام ،انسانی اورخواتین کے حقوق کی تنطیموںاور سوشل میڈیا صارفین نے اس اندوہناک واقعہ پر شدید مذمت کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کوسرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب واقعہ کے ذمہ دارپکڑے جائیں گے اورقانون کے مطابق کیسی عبرتناک سزا پائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :