جب کسی کو راکھ ملی تو کسی کو۔۔۔

منگل 20 اکتوبر 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

حفیظ سنٹر لاہور کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے جہاں کمپیوٹرز، لیپ ٹاب،موبائل فونز،ڈیجیٹل کیمرے اورپرنٹرز سمیت متعدد دیگر الیکٹرونکس کا کاروبار ہوتا ہے ۔17 کنال رقبے پر مشتمل اس سنٹر میں ایک ہزار سے زائددکانیں ہیں ۔تاجر رہنماوں کے ایک اندازے کے مطابق اس سنٹر میں روزانہ 15 سے 20 کروڑ روپے تک کاروبار ہوتا ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہزاروں افراد اور ان کے اہل خانہ کا ذریعہ معاش اسی سنٹر سے جڑا ہوا ہے۔

بدقسمتی سے اتوار کی صبح 6 بجے سنٹر کی دوسری منزل میں بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے ایسی ہولناک آگ لگی کہ جس نے حفیظ سنٹر کو راکھ کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا۔
ایک طرف آگ کے شعلے حفیظ سنٹر کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے تو دوسری جانب تاجر دھاڑیں مار مار کر اپنے ذریعہ معاش کو ختم ہوتا دیکھ رہے تھے،انھیں اس بات کا غم تھا کہ اب ان کے بیوی بچوں کو دو وقت کی روٹی کیسے نصیب ہوگی کیونکہ کورونا وائرس نے تو پہلے ہی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

(جاری ہے)

لاک ڈاون اور وباء کی وجہ سے تاجر اور کاروباری لوگ پہلے ہی قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں،انہی حالات سے دلبرداشتہ آئے دن کسی نہ کسی تاجر کی خود کشی کی خبریں میڈیا میں آرہی ہیں،ایسے میں اب جبکہ کچھ کچھ کاروبارچلنا شروع ہوئے اور تاجر اور ان کے اہل خانہ کے دال دلیہ کا کچھ سبب بننا شروع ہواہی تھا کہ کمبخت اس آگ نے سب کچھ برباد کردیا اورپھر انھیںفاقہ کشی کی جانب دھکیل دیا۔


ایک طرف آگ کے خوفناک شعلے فضاوں میں بلندتھے تو دوسری جانب متاثرہ تاجروں کی جانب سے اذان کی صدائیں آسمان تک پہنچائی جارہی تھیں۔تاجر تو دھاڑیں مار مار کر رو ہی رہے تھے ،ان کودیکھنے والوں کی آنکھوں میں بھی پانی بہہ رہا تھا کہ شائد اس پانی سے لگی آگ بجھ جائے۔ریسکیو اور فائر بریگیڈ کی 33 سے زائد گاڑیاں اور60 سے زائد ریسکیو اہلکار آگ بجھانے کی انتھک کوشش کرتے رہے لیکن آگ 11 گھنٹے گزرنے کے بعد اس وقت مدھم ہوئی جب سب کچھ جل کر خاکستر ہوچکا تھا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 400 سے زائد دکانیں جل چکی ہیں ۔جب آگ بجھی توتاجر اپنی اپنی دکانوں کی طرف دوڑے کہ شائد جینے کا کچھ سہارا مل جائے لیکن کسی کو راکھ ملی تو کسی کوپانی۔آگ اور پانی کے اس ہولناک کھیل میں سب کچھ تباہ ہوچکا تھا ۔جو دکانیں آگ سے بچ گئی تھیں ان میں آگ بجھانے کے لئے استعمال ہونے والا پانی بھر چکا تھا۔کچھ تاجر بدحواسی میں اپنی دکانوں کی راکھ چھانتے رہے کہ شائد کچھ بچ گیا ہو لیکن انھیںدوسروں کی تسلی اورہمدردی کے سوا کچھ نہ ملا۔


اس افسوس ناک واقعہ کے دوران انسانیت کی تذلیل تب ہوئی جب کچھ چوروں نے آگ کی لپٹوں کی پرواہ کئے بغیر اس وقت بھی چوری کی واداتیں کیں جب ریسکیو عملہ آگ بجھانے میں مصروف تھا۔چور دکانوں سے قیمتی موبائل فونزاور دیگر سامان چرا رہے تھے کہ اینٹی رائٹ فورس نے انھیں پکڑ لیااور تھانہ گلبرگ میں پہنچا دیا۔ دوسری جانب انسانیت کی ایک اعلیٰ مثال بھی اسی سانحہ کے دوران دنیا کو دیکھنے کو ملی جب ایک فوجی جوان نے تاجر کو روتا دیکھ کر اس کی مدد کرنے کی خاطر آگ کے شعلوں میں چھلانگ لگادی۔

ہوا کچھ یوں کہ ایک تاجر دھاڑیںمار مار کرروتے ہوئے مدد کے لئے دوسروں کے پاوں پکڑ رہا تھا ۔دراصل تاجر کے پچاس لاکھ روپے اس کی دکان میں پڑے تھے ،وہ اپنے ساتھیوں سے التجا کر رہا تھا کہ کوئی اس کے ساتھ چلے اور وہ رقم نکال لائے لیکن کسی میں بھی اتنی ہمت اور حوصلہ نہ تھا کہ تاجر کی مدد کے لئے خود کو آگ کے شعلوں میں دھکیل دے۔اسی اثناء میں ایک فوجی جوان وہاں سے گذر رہا تھا اس نے تاجر کو التجا کرت دیکھا توفوری مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور آگ کے شعلوں میںچھلانگ لگادی۔

57 ۔ بلوچ رجمنٹ کے فوجی جوان انتظار علی نے ثابت کیا کہ پاک فوج کاا یک ایک جوان کتنا دلیر ہے ۔فوجی جوان نے نہ صرف تاجر کی رقم اسے واپس دلوانے میں مدد کی بلکہ آگ میںپھنسے آٹھ سے زائد افراد کی جانیں بھی بچائیں۔اس دوران ایک موقعہ پر فوجی جوان ایک دکان کے شٹر کے نیچے دب گیا اور عین ممکن تھا وہ آگ کی لپیٹوں میں آکر شہید ہوجاتا لیکن اس فوجی جوان نے ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو شٹر کے نیچے سے نکالا اوراپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دوسروں کی جان بچانے میں لگ گیا۔سلام ہے پاک فوج کے جوانوں کو۔حکومت کو چاہئے کہ حفیظ سنٹر کے تاجروں کو ہر ممکن امداد دے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :