
کہیں رسواء نہ ہوجائیں ۔ تارکین وطن کا عالمی دن
جمعہ 18 دسمبر 2020

ڈاکٹر جمشید نظر
(جاری ہے)
آج دنیا جان چکی ہے کہ تارکین وطن کسی بھی ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیںاس کے باوجود تارکین وطن استحصالی طرز عمل کا شکار رہتے ہیںاوراکثرانھیں تعصب کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے ۔تارکین وطن معاشی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں پہلے درجے کے شہریوں کی حقارت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔اکثر تارکین وطن کے لئے ایک عمومی اصطلاح ''مہاجر'' استعمال کی جاتی ہے جوکہ غلط ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق تارکین وطن اپنے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کام کی تلاش اورتعلیم کے حصول کے لئے کسی دوسرے ملک میں جابستے ہیں جبکہ مہاجرین مسلح تصادم یا ظلم وستم سے متاثر ہونے والے افراد ہوتے ہیں، ان کے حالات اکثر بہت خطرناک اور ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں جس کی بناء پر وہ کسی دوسرے ملک میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔مہاجرین کو بین الاقوامی سرحد عبور کر کے اپنے ہمسایہ یا قریبی ممالک میں اپنے تحفظ کی غرض سے جا نا پڑتا ہے۔ اس طرح وہ مختلف ممالک، یو این ایچ سی آر اور دیگر تنظیموں کی امداد تک رسائی کے ساتھ بین الاقوامی طور پر مہاجر ین تسلیم کئے جاتے ہیں۔اس لئے تارکین وطن اور مہاجر ین میں فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے اسی بنیادی فرق کی وجہ سے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام تارکین وطن اور مہاجرین کے حوالے سے الگ الگ عالمی دن منایا جاتا ہے۔مہاجرین اور تارکین وطن کا ایک اور بنیادی فرق اس بات سے بھی واضح ہوسکتا ہے کہ تارکین وطن اپنی مرضی سے واپس اپنے ملک آسکتے ہیں جبکہ مہاجرین کویہ اختیار حاصل نہیں ہوتا۔
پاکستان سے 1960ء کی دہائی میں اپنا ذریعہ معاش بہتر بنانے کے خیال سے بڑی تعداد میں لوگ ترک وطن کر کے یورپ و دیگر ترقی یافتہ علاقوں میں آباد ہونا شروع ہوئے۔حالیہ جائزے کے مطابق تاحال سمندر پار پاکستانیوں کی مجموعی تعداد تقریباً ایک کروڑ ہے جو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں زیادہ ہے۔ اس کے بعد برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، یونان، اٹلی، اسپین، روس، فرانس، جرمنی، ناروے، ڈنمارک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائشیا اور جنوبی افریقہ میں پاکستانی ورکرز اور تارکین وطن پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستانی ورکرز کو دیار غیر میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا رہتا ہے۔ وہ پاکستانی جو اپنا وطن اور سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ملازمت کی تلاش یا اچھی زندگی کی تلاش میں دیار غیر میں پناہ لیتے ہیں ان میں زیادہ تر کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تارکین وطن جس ملک میں جاکر بستے ہیں ،نہ صرف اس ملک کے لئے بلکہ اپنے آبائی ملک کی ترقی کے لئے بھی اہم کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔دنیا کے بہت سے ممالک نے تارکین وطن کے ہنر،تعلیم،محنت مزدوری سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی ہے اور ابھی بھی کررہے ہیں۔اقوام متحدہ کی جانب سے تارکین وطن کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی پرممبر ممالک پر زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی ممالک نے تارکین وطن کو شہریت دینے کے قوانین میں ترمیم کی ہے۔اسی حوالے سے متحدہ عرب امارات اپنے ہاں مروج شہریت کے قوانین میں ترامیم کررہا ہے جس کے تحت مختلف شرائط پر پورا اترنے والے غیرملکی تارکین وطن کو اب یو اے ای کی شہریت دی جاسکے گی۔العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق ترمیمی ضوابط کے مطابق اب سرمایہ کاروں ، کاروباری شخصیات ، پیشہ ور حضرات اور خصوصی ٹیلنٹ کے حامل افراد کو یو اے ای کی شہریت دی جاسکے گی۔اپنا سب کچھ چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کی ترقی کے لئے کام کرنے والے افرادکو استحصال کا نشانہ بنانے کی بجائے نمایاں مقام دینے اور بنیادی حقوق فراہم کرنے کے لئے عالمی قوانین میں ترمیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر جمشید نظر کے کالمز
-
محبت کے نام پر بے حیائی
بدھ 16 فروری 2022
-
ریڈیو کاعالمی دن،ایجاد اور افادیت
منگل 15 فروری 2022
-
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاک فوج کی کارروائیاں
جمعرات 10 فروری 2022
-
کشمیری شہیدوں کے خون کی پکار
ہفتہ 5 فروری 2022
-
آن لائن گیم نے بیٹے کو قاتل بنا دیا
پیر 31 جنوری 2022
-
تعلیم کا عالمی دن اور نئے چیلنج
بدھ 26 جنوری 2022
-
برف کا آدمی
پیر 24 جنوری 2022
-
اومیکرون،کورونا،سردی اور فضائی آلودگی
جمعہ 21 جنوری 2022
ڈاکٹر جمشید نظر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.