انڈین کسانوں کے کھڑکنے سے کھڑک گئی کھڑکیاں

ہفتہ 30 جنوری 2021

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

آپ نے یہ منقولہ کبھی نہ کبھی تو سنا ہوگا کہ'' کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں''۔اس منقولے کے پیچھے ایک داستان ہے پہلے وہ داستان آپ کو سناتا ہوں پھر آپ کو بتاوں گا کہ یہ منقولہ آج کے دور میں کس طرح دوبارہ حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے۔
کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے اور پٹیالہ کے سب سے بااثر بڑے جاگیردار اور گاؤں کے پنچایتی سرپنچ بھی تھے۔

ایک دن معمولات سے بیزار ہوکر وہ اپنے بھانجے کے پاس گئے اور کہا کہ'' شہر کے سیشن جج کی کرسی خالی ہے مجھے جج لگوا دو''(ان دنوں میں کسی بھی سیشن جج کے آرڈر انگریز وائسرائے کیا کرتے تھے)۔کھڑک سنگھ کے ماموں نے وائسرائے کے نام ایک چٹھی لکھ کر سفارش کی کہ ان کے ماموںکھڑک سنگھ کو سیشن جج لگا دیں۔

(جاری ہے)

بھانجے سے چھٹی لکھوا کر کھڑک سنگھ سیدھاوائسرائے کے پاس جاپہنچا اور اپنے بھانجے کی چٹھی پیش کی۔

، وائسرائے نے خط پڑھا اور پھر کھڑک سنگھ سے کچھ سوالات پوچھنے لگا تاکہ یہ جان سکے کہ کھڑک سنگھ جج بننے کے اہل ہے یا نہیں۔
وائسرائے نے کھڑک سنگھ سے پوچھا'' نام؟''
کھڑک سنگھ'
وائسرائے۔ تعلیم؟
کھڑک سنگھ۔''تسی مینو جج لانا اے یاں سکول ماسٹر؟''
وائسرائے ہنستے ہوئے ''سردار جی میرا مطلب قانون کی کوئی تعلیم بھی حاصل کی ہے یا نہیں اچھے برے کی پہچان کیسے کرو گے؟''
کھڑک سنگھ نے موچھوں کو تاؤ دیا اور بولا ''بس اتنی سی بات بھلا اتنے سے کام کے لیے گدھوں کی طرح کتابوں کا بوجھ کیوں اٹھاؤں، میں سالوں سے پنچائت کے فیصلے کرتا آرہا ہوں ایک نظر میں بھلے چنگے کی تمیز کرلیتا ہوں۔

''
وائسرائے نے دل میںسوچا کہ بھلا کون مہاراجہ سے الجھے، جس نے سفارش کی ہے وہ جانے اور اس کاماموں۔وائسرائے نے عرضی پر دستخط کردیے اور کھڑک سنگھ کوجسٹس لگانے کا فرمان جاری کردیا۔
اپنے آرڈر لے کر کھڑک سنگھ پٹیالہ لوٹے اور اگلے دن بطور جسٹس کمرہ عدالت میں پہنچے گئے۔ اتفاق سے اسی روزپہلا کیس قتل کا تھا۔کٹہرے میں ایک طرف چار ملزم اور دوسری جانب ایک روتی ہوئی خاتون کھڑی تھی تھی ۔

جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے فریقین کو غور سے دیکھا اور پھر معاملہ سمجھ گئے ۔ایک پولیس افسر کچھ کاغذ لے کر آیا اور بولا ''مائی لارڈ، یہ عورت کرانتی کور ہے اس کا الزام ہے کہ ان چار لوگوں نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے۔''جسٹس کھڑک سنگھ نے عورت سے تفصیل پوچھی۔عورت بولی''سرکار دائیں جانب والے کے ہاتھ میں برچھا تھا اور برابر والے کے ہاتھ میں درانتی اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں سوٹے تھے، یہ چاروں کماد کے اولے(پیچھے) سے نکلے اورمیرے کھسم(شوہر) کو جان سے مار دیا۔

''جسٹس کھڑک سنگھ نے چاروں کو غصہ سے دیکھا اور پوچھا ''کیوں بدمعاشو، تم نے بندہ مار دیا؟''دائیں طرف کھڑے ایک ملزم نے کہا''نہ جی سرکار میرے ہاتھ میں تو کئی تھی'' ،دوسرے نے کہا'' میرے ہاتھ میں بھی درانتی نہیں تھی ،ہم تو صرف بات کرنے گئے تھے اور ہمارا مقصد صرف اسے سمجھانا تھا۔''کھڑک سنگھ نے غصہ سے کہا'' جو بھی ہو، بندہ تو مرگیا نا؟'' کھڑک سنگھ قلم پکڑ کر کچھ لکھنے لگا تو اچانک ایک کالا کوٹ پہنے شخص (وکیل) کھڑا ہوا اور بولا مائی لارڈ، رکیے، یہ کیس بڑا پیچیدہ ہے، یہ ایک زمین کا پھڈا تھا اور جس زمین پر ہوا وہ زمین بھی ملزمان کی ہے بھلا مقتول وہاں کیوں گیا تھا؟''جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس افسر سے پوچھا ''یہ کالے کوٹ والا کون ہے ؟''پولیس والے نے جواب دیا''جناب یہ ان چاروں کا وکیل ہے۔

'' کھڑک سنگھ بولا''تو انہیں کا بندہ ہوا ناں جو، ان کی طرف سے بات کررہا ہے۔'' کھڑک سنگھ نے وکیل صفائی کو بھی ان چاروں ملزمان کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہا اور پھر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کردیئے۔فیصلے میںلکھا تھا (ان چاروں قاتلوں اور ان کے وکیل کو کل صبح صادق پھانسی پر لٹکا دیا جائے)۔کھڑک سنگھ کا فیصلہ سن کرپورے پٹیالہ میں ہلچل مچ گئی، لوگ کھڑک سنگھ کے نام سے تھر تھر کانپنے لگے کہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی پھانسی دے دیتا ہے۔

اس فیصلے کے بعد اچانک جرائم کی شرح صفر ہوگئی، کوئی بھی وکیل کسی مجرم کا کیس نا پکڑتا۔ جب تک کھڑک سنگھ پٹیالہ جج رہے ریاست میں خوب امن رہا۔ آس پڑوس کی ریاست سے بھی لوگ اپنے کیس کھڑک سنگھ کی عدالت میں لاتے اور فوری انصاف پاتے۔اس واقعہ کے بعدمشہور ہوا کہ کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کی کھڑک سنگھ کایہ منقولہ آج کے دور میں پوری دنیا کو دیکھنے کو مل رہا ہے۔

انڈین کسان سکھ جس طرح ٰانڈیا میں کھڑک رہے ہیں اس سے انڈیا کے ایوانوں کی کھڑکیاں کھڑک گئی ہیں۔اقلیتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہوئے انڈیا نے جس ڈھٹائی کے ساتھ یوم جمہوریت منایا ہے وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ایک طرف انڈیا میں یوم جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جمہوریت کا گلا گھوٹنے والا سلوک کیا جارہاہے،مسلمانوں کے ساتھ دیگر اقلیتوں سکھ برادری کے ساتھ ان دنوں جو سلوک کیا جارہا ہے وہ سب کچھ دنیا دیکھ رہی ہے اور سوال پوچھ رہی ہے کہ کس منہ سے انڈیا یوم جمہوریت منا رہا ہے اسی لئے انڈیا کے یوم جمہوریت کو دنیا نے یوم سیاہ کے طور پر منایاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :