ننھے شہیدوں کا لہو آج بھی تازہ ہے
جمعرات 16 دسمبر 2021
(جاری ہے)
سن 2014 کے بعددنیا کے سیاہ ترین دن کا سورج جب بھی طلوع ہوتا ہے تو ہرآنکھ وہ منظر یاد کرکے اشکبار ہوجاتی ہے جب دہشت گردوں نے ماؤں کے سینے گولیوں سے چھلنی کردیئے۔دنیا کی تاریخ میں کسی بھی تعلیمی ادارے پر ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا ایک ایساپہلا حملہ تھاجس میں سکول کے معصوم اور بے گناہ بچوں پر بارش کی طرح گولیاں برسائی گئیں اور انھیں ان ہی کے پاک خون میں نہلادیا گیا۔وہ دہشت گرد کیسے سفاک،کیسے سنگدل،کیسے بے رحم تھے،وہ انسان تھے یا شیطان؟انسان کی کھال میں چھپے درندے جب سکول کے پیچھے دیوار پھلانگنے کے لئے قبرستان میں سے گذر رہے تھے تب بھی انھیں روز قیامت کا خوف نہیں آیا۔وہ درندے قبریں پھلانگتے،ان کی بے حرمتی کرتے ہوئے گذرتے گئے اور ایک لمحہ کے لئے یہ بھی نہیں سوچاکہ ماؤں کی گود اجاڑنے کے بعدمیدان حشر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی سفاکیت کاکیا جواب دیں گے۔
تاریخ کی بدترین مثال بننے والے اس سانحہ میں آٹھ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے 132معصوم طلباء سمیت 149 افراد شہید ہوئے۔ان شہیدوں میں سے کسی ایک کی زندگی پر لکھ کر دیکھ لیں،آپ کے قلم کی روشنائی ختم ہوجائے گی،آپ کی سوچ ختم ہوجائے گی لیکن شہید کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ان ننھے شہیدوں میں سے کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی انجینئر،کوئی حافظ قرآن تھا تو کوئی ماہرسائنس وریاضیات،ہر بچہ ذہین اورہونہار تھا۔دہشت گرد یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں زیر تعلیم بچہ بچہ مستقبل کا روشن معمار ہے۔ درندگی کا مظاہرہ کرنے سے پہلے دہشت گردوں نے معصوم طلباء سے کبھی ان کی تعلیمی قابلیت پوچھی تو کبھی رشتہ داریاں۔جب کوئی ننھا شہید بتاتا کہ وہ ڈاکٹربننا چاہتا ہے تواس کے سینے میں گولی ماردی جاتی،جب کوئی کہتا کہ انجینئر بننا ہے تو اس کے سر میں گولی ماردی جاتی یہاں تک کہ حافظ قرآن بچوں کے سینوں پر بھی گولیاں چلا تے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ جس سینے پر وہ گولی ماررہے ہیں اس کے اندر قرآن پاک محفوظ ہے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی ایک نرس کی سانحہ سے متعلق بتائی ہوئی بات رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی ہے۔نرس کے مطابق آرمی پبلک سکول کے ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کو جب ریسکیو کرکے ہسپتال میں لایا گیا تو اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا،دہشت گردوں کی گولیاں لگنے سے اس کے سر،جسم اور ٹانگوں پر خون ایسے رس رہا تھا جیسے پانی کا نل کھل گیا ہو،باوجود کوشش کے خون رک نہیں رہا تھا،اس تشویشناک حالت میں بھی شدید زخمی بچے کے منہ سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی کیونکہ بچہ حافظ قرآن تھا۔جوں جوں اس بچے کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی اس کی آواز لڑکھڑانے لگی لیکن اس نے تلاوت نہ چھوڑی یہاں تک کہ وہ بچہ شہید ہوگیا۔اس واقعہ نے ہسپتال کے ڈاکٹر، نرس اوردیگر عملہ کو خوف میں مبتلا کردیا کہ کس طرح ایک حافظ قرآن بچے نے مرتے دم تک تلاوت نہیں چھوڑی اوردوسری جانب اس کو شہید کرنے والے کس مذہب کے ہیں کہ جنھیں معصوم اور بے گناہ بچوں کو بے دردی سے شہید کرتے ہوئے ذرا بھی رحم نہیں آیا۔اس تاریخی سانحہ میں دل دہلا دینے والے ایسے بے شمار واقعات رونما ہوئے جنھیں کسی ایک کالم،آرٹیکل،خصوصی ایڈیشن حتیٰ کہ کتابوں میں بیان کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کی چہچہاتی آوازیں،مسکراہٹیں ان کے والدین کو آج بھی سنائی دیتی ہیں،کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے کانوں میں اب بھی شہید پرنسپل طاہرہ قاضی کی جرات مندانہ آواز گونجتی ہے کہ”پہلے میری جان جائے گی پھر ننھی جانوں کو کچھ ہوگا۔“ دہشت گردوں کی کمر تو اسی وقت ٹوٹ گئی تھی جب سکول کے زخمی بچوں نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ”آپ ہمیں زخمی بچہ نہیں بلکہ زخمی فوجی سمجھیں۔“ننھے شہیدوں کا لہو اور یادیں آج بھی تازہ ہیں اور ہمیشہ تازہ رہیں گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر جمشید نظر کے کالمز
-
محبت کے نام پر بے حیائی
بدھ 16 فروری 2022
-
ریڈیو کاعالمی دن،ایجاد اور افادیت
منگل 15 فروری 2022
-
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاک فوج کی کارروائیاں
جمعرات 10 فروری 2022
-
کشمیری شہیدوں کے خون کی پکار
ہفتہ 5 فروری 2022
-
آن لائن گیم نے بیٹے کو قاتل بنا دیا
پیر 31 جنوری 2022
-
تعلیم کا عالمی دن اور نئے چیلنج
بدھ 26 جنوری 2022
-
برف کا آدمی
پیر 24 جنوری 2022
-
اومیکرون،کورونا،سردی اور فضائی آلودگی
جمعہ 21 جنوری 2022
ڈاکٹر جمشید نظر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.