اومیکرون وائرس ۔ دنیا ایک مرتبہ پھر تباہی کے دہانے پر

جمعہ 24 دسمبر 2021

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے پیدا شدہ خراب حالات ابھی نارمل ہونا شروع ہوئے ہی تھے کہ کوروناوائرس کا نیا ویرئنٹ اومیکرون سامنے آگیا جس نے آتے ہی ہلچل مچا دی ہے کیونکہ یہ نیا وائرس کورونا وائرس سے کئی گنا تیزی سے پھیلتا ہے اوراس قدرخطرناک ہے کہ انسان کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں مل پاتا۔اس وائرس کا پہلا کیس جنوبی افریقہ سے رپورٹ ہوا ہے تاہم سائنس دان اومیکرون کی اصل جائے پیدائش،اس کے ارتقاء اور محرکات کوڈھونڈھنے کے لئے تحقیقات کررہے ہیں کیونکہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اومیکرون نے جنوبی افریقہ سے جنم لیا ہے۔

اب تک کی تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اومیکرون کا پہلا وائرس جنوبی افریقہ کے ایک ایسے شخص میں پایا گیا جو ایچ آئی وی کا شکار تھا۔

(جاری ہے)

اس وائرس کی پہلی مرتبہ شناخت جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی کوازولونتال میں متعدی امراض کے شعبہ نے کی۔یونیورسٹی کے ماہرین متعدی امراض کا خیال ہے کہ اومیکرون کا وائرس شائد اس لئے اس شخص میں پیدا ہو ا ہے کہ اس نے ایچ آئی وی کا جاری علاج ادھورا چھوڑ دیا تھا۔

یہ بات ابھی تصدیق سے نہیں کہی جاسکتی کہ اومیکرون کا جنم کیسے اور کہاں ہوا،کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اومیکرون وائرس جنوبی افریقہ کے جنگل میں پائے جانے والے کسی جانور کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ جب تک اس وائرس کی جائے پیدائش اور محرکات کا مکمل طورمعلوم نہیں ہوسکے گا،اس وائرس سے بچاو کے لئے ویکسین کی تیاری کا عمل موثر طریقہ سے شروع نہیں کیا جاسکتا۔

پہلی مرتبہ نومبر میں جب عالمی ادارہ صحت کو اس وائرس سے متعلق آگاہ کرایا گیا تو اس وائرس کی انسانی جسم پر تیزی سے ہونے والے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا نام اومیکرون تجویز کیا گیا، اس کے بعد دنیا کوخبردار کردیا گیا کہ کورونا وائرس کا خطرناک ترین ویرئنٹ پیدا ہوچکا ہے جوتیزی سے پھیلنے کو تیار ہے۔عالمی ادراہ صحت نے اس وائرس کا جنیاتی کوڈ B.1.1.529 رکھا۔

جنیاتی تجزیہ کے دوران حیران کن بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس وائرس کا شجرہ نسب بالکل مختلف شاخ پر موجود ہے،اومیکرون وائرس کی علامات کورونا وائرس سے ملتی جلتی ہیں لیکن اس وائر س کے شکار مریضوں سے ایک بات بالکل واضح ہوگئی ہے یہ وائرس انسانی پھیپھڑوں پر بہت تیزی سے اور خطرناک طور حملہ کرتا ہے جس سے بچنا ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ اومیکرون کی تشخیص ہوئے ابھی چند روزہی گذرے ہیں کہ یہ وائرس دنیا کے 89 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے اور مزید تیزی سے پھیل رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق اومیکرون وائرس کے مریضوں کی تعداد ہر ڈیڑھ سے تین دن میں دگنی ہورہی ہے اسی وجہ سے دنیا بھر میں ایک مرتبہ پھر موت کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔اومیکرون کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لئے دنیا بھر میں پھر سے سفری پابندیاں لگنا شروع ہوگئی ہیں کیونکہ اومیکرون وائرس اتنا طاقتور ہے کہ اس پر کورونا وائرس کی ویکسین کا بھی اثر نہیں ہورہا۔

چین کی شنگھائی جیاو تانگ یونیورسٹی اور وبائی امراض پر تحقیق کرنے والے ادارے کی مشترکہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین سائنوفارم کا تیسرا ڈوز بھی اومیکرون کے خلاف اتنا موثرنہیں ہے اس ڈوز سے محض 20 فیصد اینٹی باڈیز تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔چین کی تیاررکردہ ویکسین سائنو فارم اور سائنو ویک اس وقت پاکستان سمیت متعدد ایشیائی اور متوسط ممالک میں استعمال ہو رہی ہیں۔

دنیا بھر کے ماہرین کی رپورٹس کے برعکس روسی ماہرین نے اومیکرون وائرس کو کورونا وائرس کے خاتمہ کی نشانی بتایا ہے تاہم ابھی تک کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس وائرس کا انکشاف ہوتے ہی اموات کی شرح بڑھنے لگی ہے۔
اومیکرون وائرس جس قدر تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ دنیا میں خدانخواستہ بہت بڑی تباہی آنے والی ہے،اس آفت سے مقابلہ کرنے کے لئے دنیا کوآپس کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہونگی۔

عالمی طاقتوں امریکہ اورچین کو ایسے نازک حالات میں ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دینے کی بجائے اومیکرون وائرس کے خلاف مل کر جنگ کرنا ہوگا اسی طرح انڈیا جس طرح پاکستان کو جنگ کی جانب مائل کررہا ہے اس کو بھی ہوش کے ناخن لینا ہونگے،بی جے پی کی حکومت محض اقتدار کو بچانے کے لئے خطہ کا امن داو پر لگا رہی ہے موجودہ حالات میں انڈیا کو جنگی جنون چھوڑ کر اپنے ملک میں پھیلے اومیکرون وائرس پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرنے چاہیے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں بھی اومیکرون کا مریض رپورٹ ہوچکا ہے۔ماہرین کے مطابق اومیکرون کا ایک مریض کسی بھی ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتاہے کیونکہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔اس خطرناک ترین وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے سب کوتیار ہونا ہوگااور پہلے
 سے کہیں زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہونگی کیونکہ فی الوقت ہم صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرکے خود کو اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :