
بھارت میں کورونا کی تباہ کاریاں ۔۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟
جمعہ 30 اپریل 2021

ڈاکٹر لبنی ظہیر
(جاری ہے)
پاکستان میں اللہ کے فضل سے ہمیں بھارت جیسی صورتحال درپیش نہیں ہے۔لیکن کورونا کی تیسری لہر کے اثرات تشویشناک ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر کئی ہزار نئے کیس سامنے آ رہے ہیں۔ اموات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ایک دن میں ڈیڑھ سو سے زائد اموات کی خبر کوئی معمولی واقعہ ہرگز نہیں ہے۔ تیسری لہر نے معصوم بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور جیسے اہم شہروں کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے خبر دی ہے کہ دستیاب آکسیجن کا 90 فیصد زیر استعمال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آکسیجن در آمد بھی کریں تو صورتحال پر قابو پانا مشکل ہو گا۔ این سی او سی کے سربراہ اسد عمر بھی صورتحال کی سنگینی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ اطلاع بھی تشویشناک ہے جس میں آکسیجن کمپنیوں نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں بھی (خدانخواستہ) بھارت جیسی صورتحال ہو سکتی ہے۔ ان ساری تشویشناک خبروں میں تلاش کرنے پر بھی یہ خبریں دکھائی نہیں دیتیں کہ اس صورتحال سے بچنے کے لئے حکومتی سطح پر کیا کیا اقدامات ہو رہے ہیں۔
عوام کو یہ تو بتا دیا گیا ہے کہ محض چند دن یا گھنٹوں کے استعمال کے لئے آکسیجن موجود ہے۔ مگر کوئی خبر نہیں کہ آکسیجن کے حصول کیلئے کیا اقدام اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ اطلاع تو عوام کو دے دی گئی ہے کہ ہسپتالوں میں مزید مریضوں کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس صورتحال سے نکلنے یا نپٹنے کیلئے حکومت نے اب تک عملی طور پر کیا کیا ہے؟گزشتہ ایک سال سے ہمیں کورونا نامی اس آفت کا سامنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ایک برس میں پاکستان میں کتنے نئے ہسپتال بنے ہیں؟ طبی استعداد کار میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟ اگر خدانخواستہ بھارت جیسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کے لئے ہم نے کیا انتظامات کر رکھے ہیں؟
ایک طرف کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ انہیں دو وقت کی روٹی ملنا دشوار ہو چلا ہے۔ ایسے میں اگر سرکاری ہسپتالوں میں گنجائش نہیں تو وہ نجی ہسپتالوں میں علاج معالجے کا خرچ کیسے اٹھائیں ؟ یوں تو سرکاری ہسپتالوں میں بھی مفت سہولیات میسر نہیں ہیں۔ آج کل میڈیا پر نوشہرہ کے سرکاری ہسپتال میں کورونا مریضوں کے علاج کا نرخ نامہ زیر گردش ہے۔ریٹ لسٹ کے مطابق ایک دن کا خرچ تیس سے پچپن ہزار روپے ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں گزشتہ آٹھ سال سے مسلسل تحریک انصاف حکمران ہے۔ یہ جماعت کے سیاسی رہنما تعلیم اور صحت کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے رہے ہیں۔لیکن سرکاری ہسپتالوں کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ دیگر صوبوں کی حالت بھی کچھ ایسی مثالی نہیں ۔
اس وبا کی روک تھام کی غرض سے پاکستا ن میں تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کاروباری اور دیگر سماجی سرگرمیاں محدود کر دی گئی ہیں۔ اس کے باوجود عوام الناس ابھی تک اس وبا کو کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ماسک کا استعمال کم کم ہے۔ سماجی فاصلہ رکھنے کے حوالے سے بھی بے نیازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ تازہ تریں اقدام کے طور پر عوام کو احتیاطی تدابیر پر عمل کروانے کیلئے فوج طلب کر لی گئی ہے۔یعنی فوجی جوان اب سڑکوں، گلیوں ، چوراہوں پر کورونا سے متعلق احتیاطی تدابیر کو یقینی بنانے میں معاونت فراہم کریں گے۔ اخبارات میں جمی بڑی بڑی خبریں پڑھ کر خیال آتا ہے کہ زلزلے، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے ہنگام فوج کی مدد لینا تو چلیں قابل فہم عمل ہے۔ دنیا بھر میں یہی رواج ہے۔ مگر اب کیا فوج عوام کو ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ یقینی بنانے کی ہدایت دیا کرئے گی۔ عوام کو تلقین کرنے کا یہ کام پولیس یا ضلعی انتظامیہ کی مدد سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ماہ قبل نہایت جوش و جذبے کیساتھ ٹائیگر فورس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ان کی تربیت اور یونیفارم وغیرہ کے حوالے سے بھی خبریں شائع ہوتی رہیں۔ خود عمران خان مختلف سرکاری تقاریب میں تواتر سے اس فورس کی اہمیت بیان کیا کرتے تھے۔ نجانے وہ ٹائیگر فورس کیا ہوئی۔
ویکسین لگانے کی سست رفتار صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ ہسپتالوں میں مزید مریضوں کو سمونے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ہنگامی طور پر نئے ہسپتال بنانے کی دور دور تک کو ئی اطلاع نہیں ہے۔ 90 فیصد آکسیجن زیر استعمال ہے۔ کوئی خبر نہیں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے کیا حکمت عملی طے ہوئی ہے۔عوام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے گریزاں ہیں، جبکہ حکومت مکمل لاک ڈاون کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔اندازہ کیجئے اگر خدانخواستہ یہاں بھارت جیسی صورتحال بنتی ہے، تو پاکستانی عوام پر کیا بیتے گی۔ بس اللہ پاک اس قوم پر رحم فرمائے۔ آمین ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.