حد سے زیادہ محبت بت پرستی ہے

بدھ 3 جون 2020

Dr Maqbool Ahmad Siddiqi

ڈاکٹر مقبول احمد صدیق

 چند دن قبل معروف سکالر جناب محمد الیاس قادری عطار صاحب کی ایک کتاب گانوں کے 35 کفریہ اشعار (گوگل پر موجود ہے) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔اس چھوٹی سی کتاب میں آپ نے نہایت ناپسندیدہ 35 اشعار کا تذکرہ کیا ہے۔ان اشعار میں محبوب سے حد درجہ محبت کا اظہار کیا گیا ہے--اسکی محبت کو پوجا سے تشبیہہ دی گئی ہے ۔یہ ایک قسم کی بت پرستی ہی ہے جسمیں بت کی جگہ انسان کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔

اپنی ہر خوشی اور غمی کا محور اسے مقرر کر لیا جاتا ہے۔بت پرستی کے یہی معنی نہیں کہ ہندوؤں کی طرح بت لے کر بیٹھ جائے اور اسکے آگے سجدہ کرے بلکہ حد سے زیادہ محبت بھی عبادت ہی ہوتی ہے۔افسوس آج کے دور میں بہت سے لوگ کسی انسان سے اسقدر زیادہ محبت کر بیٹھتے ہیں کہ اللہ کو بھول کر صرف اسی محبوب کو ہی اپنا راحت وآرام قرار دے بیٹھتے ہیں۔

(جاری ہے)

قادری صاحب کی کتاب میں موجود 35 اشعار میں سے چند اشعار نیچے درج کیے جاتے ہیں ذرا نوٹ کیجیئے کہ کیا یہ الفاظ مناسب ہو سکتے ہیں؟؟

کفریہ اشعار
دل میں تجھے بٹھا کے کرلوں گی میں بند آنکھیں
پوجا کروں گی تیری ھوکے رھوں گی تیری
۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں ہو تم آنکھوں میں تم بولو تمھیں کیسے چاھوں
پوجا کروں سجدہ کروں جیسے کہو ویسے چاھوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رکھوں گا تمھیں دھڑکنوں میں بسا کے
تمہیں چاھوں گا خدا میں بنا کے
۔۔۔۔۔۔۔۔
حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے
خدا بھی نہ جانے تو ہم کیسے جانیں
اوپر کے اشعار میں دل اور دھڑکنوں کو محبوب کے لیے ہی وقف کر دیا گیا ہے اور مزید حیرت ہے کہ دنیاوی محبوب حسینوں کے دلوں میں جو کچھ ہے کہا جا رہا ہے کہ یہ خدا بھی نہیں جانتا توبہ توبہ کس قدر گمراہ کن یہ الفاظ ہیں اور شاعروں کو بھی شرم نہیں آتی یہ الفاظ لکھتے اور فلم والوں کو بھی سمجھ نہیں آتے کہ کس قدر زہریلا اثر وہ آگے پھیلا رہے ہیں --اللہ کی مخلوق سے خوب محبت رکھیے یہ جائز ہے مگر ایک حد سے زیادہ چاہنا کہ اسے ہی سب کچھ سمجھ بیٹھنا اور اپنے خالق حقیقی یعنی اللہ تعالی کی ہستی کو مدنظر ہی نہ رکھنا یہ شرک نہیں بت پرستی نہیں تو اور کیا ہے۔

اب ایک طرف تو دل اور دھڑکنوں پر محبوب کا تسلط تسلیم کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس دنیا کے عارضی اور فانی محبوب کی جدائی کو ہی زندگی کا خاتمہ سمجھا جا رہا ہے۔خدا کو بھلایا جا رہا ہے شکوے شکایات کی جا رہی ہیں۔
زمانے کے مالک یہ تجھ سے گلا ھے
خوشی ہم نے مانگی تھی رونا ملا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلہ میرے لب پہ بھی آنے سے پہلے
زمانے کے مالک تو رویا تو ہوگا
۔

۔۔۔۔۔۔
رب نے مجھ پر ستم کیا ہے
زمانے کا غم مجھے دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یارب تو نے یہ دل توڑا اس موسم میں
یاد رہے کہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے--اسی سے متاثر ہوتا ہے---اور جب کسی اداکار یا اداکارہ کی اداکاری میں ان کے حسن میں کھو جاتا ہے تو متاثر ہی نہیں شدید ترین متاثر ہو کر اخلاقی طور پر سخت زخمی ہو جاتا ہے گرجاتا ہے۔

اور پھر رنگین دنیا کے ان فلمی سپر سٹارز جیسا انداز اور سٹائل اہنانا شروع کر دیتا ہے--پھر ان کے ڈائیلاگز میں جو سراسر غیر اخلاقی بھی ہوں ان میں گم ہوکر اپنے محبوب کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔جب فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ ہیرو ہیروئن کا مقصد ہی ہر جائز اور ناجائز حد کو پار کرکے ایک دوسرے کو حاصل کرنا ہے چاہے گھر والوں سے لڑنا پڑے یا روایات اور سماج کو توڑنا پڑے۔

۔۔تو اس سے سخت غلط پیغام ملتا ہے اور مزید افسوس کہ ایسی فلموں میں ہمیشہ ہی والدین اور سماج کا منفی کردار ہی دکھایا جاتا ہے۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے گانے بالکل بھی نہ سنے جائیں اگر ڈرامے یا فلمیں دیکھنے کا زیادہ ہی شوق ہو تو مختصر ٹائم میں مکمل ہوجانے والے ڈرامے یا فلمیں ہی دیکھیں جن میں بے حیائی نہ ہو اور نہ حد درجہ عشق ومحبت کی داستانیں ہوں۔

اصولا اس زمانہ کی چکا چوند روشنیوں اور بے حیائیوں سے ممکنہ حد تک بچا جائے مصروفیات اور دلچسپیوں میں اسقدر نہ کھویا جائے کہ انسان اپنی خالق ومالک کو ہی بھول جائے۔
عبادت کے اصل مفہوم کو سمجھا جائے-عبادت کیا ہے--بت پرستی کیا ہے۔
عبادت کا مطلب اللہ کی بندگی ہے غلامی اختیار کرنا ہے--اور یہ غلامی تبھی ہو سکتی ہے اگر زندگی مکمل احکامات الہی کے تحت گزاری جائے
اللہ کی محبت کو غالب رھا جائے۔

یاد رہے کہ توحید ہو یا بت پرستی دونوں میں محبت لازمی ہوتی ہے-- امید توقعات سب وابستہ ہوتی ہیں۔ اچھا انسان ہمیشہ اپنے خالق ومالک کی محبت کو ہی تمام دنیاوی محبتوں پر غالب رکھتا ہے -اسطرح حقیقی راحت وآرام پاتا ہے۔
دنیاوی محبتوں کا خدا کی محبت سے موازنہ
 اب ذیل میں دنیاوی محبتوں کا خدا کی محبت سے موازنہ بتایا جاتا ہے۔
1-- بے چینی اور بے قراری---دنیاوی محبتیں جو حد سے بڑھی ہوئی ہوں وہ ہمیشہ بے قراری اور بے چینی میں ہی مبتلا رکھتی ہیں---مگر خالق حقیقی کی محبت جتنی زیادہ ہوگی اور اسکے احکامات کے مطابق ایک اعتدال سے ہوگی اتنا ہی وہ انسان کو چین اور قرار دے گی۔

2-خود غرضی--دنیاوی محبتیں جو حد سے بڑھی ہوئی ہوں وہ انسان کو خود غرض اور مطلب پرست بنا دیتی ہیں انسان صرف اپنے محبوب یا محبوب اشیاء کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ دوسروں کی چاہت یا جذبات کی بالکل قدر نہیں کرتا سماج اور خاندانی روایات اور عزیزواقارب کے جذبات کا بالکل خیال نہیں رکھتا۔دنیاوی محبت اسے عزیزواقارب سے دور کر دیتی ہے۔اسکے برعکس خالق حقیقی سے محبت کرنے والا صرف اپنی ذات کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی جیتا ہے دنیاوی محبت دنیاوی اپنے ہی رشتوں سے دور کر دیتی ہے جبکہ اللہ کی محبت اسے اپنے عزیزواقارب کے اور بھی قریب لے آتی ہے۔

3--عارضی سکون--دنیا اور اسکی خواہشات کے پیچھے بھاگنے والی ہمیشہ وقتی لذات ہی پاتے ہیں مگر جو خدا سے محبت کرتے ہیں وہی دنیاوی لذات بھی بھرپور پاتے ہیں--میاں بیوی کے تعلق کی حقیقی لذات اور سکون بھی وہی پاتے ہیں۔
4-صحت پر برا اثر---دنیاوی محبت اگر جنون کی حد تک بڑھ جائے تو صحت خراب کرکے رکھ سکتی ہے ڈپریشن اور بری عادات اور مجرمانہ سوچ پیدا کر سکتی ہے
5--مایوس انجام۔۔۔دنیاوی حد سے بڑھی محبتیں ان کا انجام اکثر مایوسی یا خود کشی ہوتا ہے-مگر کبھی آپ نہ دیکھیں گے کہ کسی نے اللہ سے محبت بھی کی ہو اور پھر نامراد مرا ہو یا خود کشی کی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :