مائدہ ۔۔۔اللہ کا دسترخواں

منگل 4 مئی 2021

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے کہا کہ اے اللہ،اے ہمارے رب، آسمان سے ایک دستر خوان اتار جو ہمارے پہلوں اور پچھلوں کیلئے عید ہو اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے(سورة المائدہ ۔آیت نمبر 114)حضرت عیسیٰ  کی یہ دعا ایک انتہائی جامع دعا ہے ۔اس دعا کااگر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس سے سات حقائق نظر آتے ہیں1۔

اے اللہ 2۔اے ہمارے رب یعنی پالنے والے3۔آسمان سے ایک دستر خوان اتار 4۔جو ہمارے پہلوں اور پچھلوں 5۔کیلئے عید ہو 6۔اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو 7۔اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔جیسا کہ سورة مبارکہ کے نام سے واضح ہے مائدہ یعنی تیار دسترخوان اور دسترخوان اس وقت بچھایا جاتا ہے جب سارے کھانے تیار ہو جائیں ۔

(جاری ہے)

ایسے ہی جب دسترخوان کی درخواست حضرت عیسیٰ نے کی تو صرف اپنے لیے نہیں کی بلکہ پچھلوں یعنی بعد میں آنے والوں کیلئے بھی کی۔

ایسی خوشی جو بار بار لوٹ کر آئے۔حضرت عیسیٰ کی دعا قبول ہوئی۔ آسمان سے دسترخوان اتارا جہاں سے پوری قوم کھانا کھایا کرتی۔مگر وہ دسترخوان تو ان لوگوں کیلئے اتارا جاتا تھا جو ان کے ساتھ تھے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد کوئی دسترخوان نہیں اتارا گیا تو وہ بعد میں آنیوالے کون تھے جن کیلئے ان نے دعا فرمائی؟صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جب دس محرم الحرام کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم بھی یہ روزہ رکھا کریں گے کیونکہ یہود سے زیادہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق دار ہم ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ ہر آنیوالے پیغمبر نہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی بشارت دیا کرتے تھے بلکہ ہمارے لیے دعاگو بھی رہے۔ اب اگر ہم یکم رمضان المبارک سے لے کر 30 رمضان المبارک تک دنیا کی عظیم مساجد مسجد الحرام،مسجد نبوی عالم اسلام کی بے شمار شاندار مساجد،پاکستان جیسے غریب ملک کی بڑی بڑی مساجد سے لیکر دور دراز گاؤں کی کوئی ایسی مسجد جسے مٹی اور گھاس پھوس سے لیپ کیا گیا ہو میں افطار سے 5 منٹ پہلے چلے جائیں تو آپ اللہ تعالیٰ کے آسمان سے اتارے ہوئے دسترخوان کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں وہاں ہر قسم کا عمدہ کھانا سب کیلئے موجود ہوتا ہے۔

وہاں کسی چھوٹے بڑے ،امیر غریب روزہ دار بغیر روزہ کے کی کوئی تفریق نہیں ہوتی یوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا ہمارے حق میں قبول ہوئی۔ اسی آیت مبارکہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے لفظ عید کا بھی استعمال کیا ہے یعنی آپ علیہ السلام کی نظر میں عید اس دن ہو گی جب جب عمدہ کھانا سامنے آئے گا اور بار بار آئے گا۔تو اس اعتبار سے ہماری اصل عید تو یکم رمضان سے 30 رمضان المبارک تک ہے، جب ہم اللہ تعالیٰ کے دسترخوان کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں۔

یوں خوشی ہم پچھلے چودہ سو سال سے ہر سال 29 تیس دن تک مناتے ہیں پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانی یعنی معجزہ ہو تو افطار دسترخوان سے اور بڑا معجزہ ہمارے لیے کیا ہو گا، کہ کھانے والا پورے حق کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا ہوتا ہے۔وہ نہیں جانتا کہ کھانا کہاں سے آیا کس نے تیار کیا کون ہے جو اس کے سامنے کھانا احترام کے ساتھ پیش کر کے آگے گزر گیا۔

آخر میں رزق کی دعا کی گئی تو حضرت سلیمان فارسی سے مروی ایک لمبی حدیث ہے ۔جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکم رمضان المبارک کی شب خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ مسلمان کے رزق میں اضافہ فرماتے ہیں ۔یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی سب سے لاڈلی امت ہیں اور ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہونا کوئی عام بات نہیں ہے الحمداللہ۔

یوں مندرجہ بالا آیت کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان کی اصل عید رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے۔میری طرف سے تمام امت مسلمہ کو رمضان مبارک۔
ہے میرامقصد "تیری عبادت"عذاب کیسا ؟ثواب کیسا؟
گنوں میں کیوں تسبیح کے دانے ؟محبتوں میں حساب کیسا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :