
یکم مئی یوم مزدور
جمعہ 1 مئی 2020

ڈاکٹر راحت جبین
(جاری ہے)
گاڑی دھیرے دھیرے آ گے بڑھ رہی تھی. یہیں ہماری نظر ایک زیر تعمیر بلڈنگ.
پر پڑی وہاں کئی مزدور کام کرتے نظر آ ئے. کچھ آ گے بڑھے تو ایک بوڑھا شخص دکھائی دیا .جو روز کی طرح آ ج بھی دھوپ تلے بیٹھا پرانے جوتوں کی مرمت کر رہا تھا. خیر ایک سر سری سی نظر ڈالنے کے بعد میں پھر بچوں کی جانب متوجہ ہو گئی. کچھ دیر بعد ہم ایک ریستوران کے سامنے کھڑے تھے.یہ شہر کے بہترین ہوٹلوں میں سے ایک تھا. ریستوران کے دروازے پر کھڑے گارڈ بےہمارا پرتپاک استقبال کیا. اندر داخل ہوئے تو ارد گرد کوئی بھی میز خالی نظر نہ آ ئی. رش دیکھ کر سمجھ آ یا کہ آ ج زیادہ تر لوگ اس چھٹی کے دن کو انجوائے کرنے کے لئےنکلے ہیں .کچھ دیر انتظار کے بعد ایک ٹیبل خالی ہوئی تو بچوں نے جلدی سے نشست سنبھال لی. فورا ہی ویٹر آ یا اور آ رڈر لے کر چلا گیاکھانے سے فارغ ہو کر واپس گھر کے لئے روانہ ہوئے. راستے میں چھوٹا بیٹا گویا ہوا. کہ مما آ ج کی چھٹی کس لئے دی گئی ہے. میں نے کہا بیٹا آ ج مزدوروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے. اور اس دن پوری دنیا میں علامتی طور پر ایک چھٹی دی جاتی ہے. اس دن کو منانے کا اصل مقصد امریکا کے شہر شکاگو میں محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے. پہلے مزدور استحصال کا شکار تھے. ان کو دن بھر میں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا. ان سب نے مطالبہ کیا کہ ان کے اوقات کار میں کمی کر کے آ ٹھ گھنٹے کئے جائیں. ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو یکم مئی کو عالمی طور پر ایک تحریک کا اعلان کیا گیا. اور عالمی سطح پر ایک فیڈ ریشن تشکیل دی گئی. اس کا نام فیڈریشن آ ف آرگنائیزڈ ٹریڈرز ایڈ ڈویلپرز رکھا گیا. اس فیڈریشن کے ماتحت اپریل 1886میں شکاگو میں اکھٹا ہونے کا فیصلہ کیا گیا. آ خر کار بہت جدو جہد کے بعد ان کے مطالبات مان لئے گئے. اور ان کے اوقات کار میں کمی کرکے آ ٹھ گھنٹہ کردئے گئے. اور اس دن کی مناسبت سے یہ دن منایا جانے لگا.
بیٹا خاموشی سے یہ سب سنتا رہا. میری بات ختم ہونے پر بولا. مما ہم سب تو مزدور نہیں ہیں. مزدور تو آ ج بھی روز کی طرح کام میں لگے ہوئے ہیں. ان کو چھٹی کیوں نہیں دی جاتی جن کا یہ دن ہے. اور باقی سب چھٹی کرتے ہیں. ایک معصوم بچے کا یہ ایک ایسا سوال تھا جو کہ میرے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کے منہ پر بھی ایک طمانچہ تھا. اس سوال نے مجھے اندر سے جھنجوڑ ڈالا اور میں اپنا محاسبہ کرنے بیٹھ گئی.
مزدور جن کا یہ دن ہے ہم اسے بڑے جوش و ولولے سے مناتے ہیں. بڑے بڑے جلسے منعقد کرتے ہیں. اور ان مزدوروں کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں. ان کی مجبوریوں اور حقوق کا رونا روتے ہیں اور آ خر میں داد بٹور کر خوش ہوتے ہیں. اور اپنی اپنی چھٹی انجوائے کرکے خوشی خوشی اپنی راہ لیتے ہیں. مگر اصل طبقہ مزدور جن کے لئے یہ سب اہتمام کیا جاتا ہے. وہ معمول کی طرح اپنے کاموں میں مشغول نظر آ تے ہیں.
وہ نہ چھٹی کرتے ہیں اور نہ ہی کسی جلسے میں جاتے ہیں. اگر جاتے بھی ہیں تو صرف مزدوری کے حساب سے, وہاں کام کرتے ہیں اور جلسے کی تیاریوں میں جتے ہوتے ہیں. اور ہم سب اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ان کے سامنے ان کی بے بسی کے قصے سنا کر داد وصول کرتے ہیں. اور الٹا ان کو بات بے بات ڈانٹتے ہیں. اور وہ اپنی عزت بفس کو مجروح کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے دو وقت کی روٹی بھی تو کمانی ہوتی ہے.
مزدور ہمارے معاشرے کا اہم ترین ستون ہونے کے باوجود سب سے کمزور ترین طبقہ ہیں. جن کی زندگی کا واحد مقصد اپنے بیوی بچوں اور اپنے گھر والوں کے لئے دو وقت کی عزت کی روٹی کمانا ہے. مزدور کا جو استحصال 1886میں ہو رہا تھا وہ اب بھی اسی طرح جاری و ساری ہے. ایک یوم مزدور کو ہی لے لیں ان کی چھٹی کا دن ان کے بجائے ہم منا رہے ہوتے ہیں. مانا کہ ہم سب ایک قسم کے مزدور ہی ہیں. مگر جو کوشش اس وقت ہوئی وہ اس مخصوص طبقے کے لئے ہی تھی. مگر آ ج ہم اپنے گھروں سے لے کر گلی کوچوں اورشہروں پر نظر دوڑائیں تو مزدور کا دکھ کم نہیں ہوا ہے. اور سب سے بڑی بات کہ ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کا بھی کوئی دن منایا جاتا ہے. اور یوم مزدور کیا بلا ہے. اس دن کی آ ڑ میں سب اپنے اپنے کام روک دہتے ہیں. اور روز کی دھاڑی پر پلنے والے مزدور اس دن کام نہ ملنے پر مایوس گھر لوٹتے ہیں اور اس دن ان میں سے زیادہ تر کے بیوی بچے بھوکے سوجاتے ہیں .
مزدور طبقے کا جو استحصال جانے انجانے میں ہو رہا ہے اس کو اب روکنا ہوگا. اور ان کے جائز حقوق ان کو دینے ہونگے. اور ان ہی مزدوروں کے ووٹوں سے کامیاب اور منتخب شدہ کابینہ کو اس دن کی مناسبت سے کوئی ایسی قانون سازی کرنی چاہئے. کہ سارے مزدوروں کا گورنمنٹ کی سطح پر اندراج ہو اور یکم مئی کو ان کی بھی چھٹی ہو. اور ان کو کم از کم ایک ماہ کی تنخواہ گورنمنٹ کی طرف سے ملے. تاکہ اس طبقے پر چھائے مایوسی کے بادل کم کئے جا سکیں. اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان کے بچوں کی مفت تعلیم کو فوقیت ملے.اور ہر سطح پر ان کے لئے الگ اسکالرشپ ہو. تاکہ دشمن کے بچوں کے ساتھ ساتھ یمارے ملک کے مزدوروں کے بچے بھی پڑھ لکھ سکیں. اور معاشرے کا اہم رکن بن سکیں. اور اس تاثر کو بالکل ختم کیا جائے کہ مزدور کا بچہ مزدور ہی رہے گا. کیونکہ تعلیم ان کا بھی بنیادی حق ہے اور بنیادی حق گورنمنٹ کے ذمے ہوتے ہیں اور وہی جواب دہ بھی ہیں.
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر راحت جبین کے کالمز
-
"سرطان کا عالمی دن"
جمعہ 4 فروری 2022
-
"کیا ہم مردہ پرست قوم ہیں؟"
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
"استاد اور معاشرتی رویہ"
منگل 5 اکتوبر 2021
-
لٹل پیرس کا گورنر ہاؤس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
رشتے کیوں ٹوٹتے ہیں
منگل 21 ستمبر 2021
-
یوم آزادی، کیا ہم آزاد ہیں ؟
بدھ 11 اگست 2021
-
شریکِ جرم نا ہوتے تو مخبری کرتے
بدھ 28 جولائی 2021
-
"عید الاضحی کے اغراض و مقاصد"
جمعہ 23 جولائی 2021
ڈاکٹر راحت جبین کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.