"قلم کا دکھ"

ہفتہ 6 جون 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

قلم کیا ہے؟ دیکھنے میں ایک معمولی چیز, مگر اس کی طاقت بہت زیادہ ہے .اور یہ طاقت اس وقت سوا ہو جاتی ہے, جب سچ بھی اس کا ساتھ دے. قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کے تیر  برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی. اسی کے نتیجے میں کئی لوگ پابند سلاسل ہوجاتے ہیں اور کئی تختہ دار پر چڑھا دئیے جاتے ہیں. یہاں تک کہ قلم دانوں کی گردنیں کاٹ دی جاتی ہیں .اور یہی لفظ اگر کسی کی زبان پر آ جائیں تو زبانیں کاٹ دی جاتی ہیں.

قلم کی سچائی اور طاقت کو ہر دور اور ہر جگہ  دبانے کی کوشش کی گئی ہے.
ہمارے معاشرے میں سچ بولنے اور سننے کے خواہشمند تو بہت ہیں مگر سچائی کو برداشت کرنا اور قلم کار کے لکھے سچ کو برداشت کرنا سب کے لیے مشکل ہوتا ہے.

(جاری ہے)


اگر کوئی سچائی کو اس کے حقیقی کرداروں کی ساتھ عیاں کردے تو اسے مجرم گردانا جاتا ہے. لعنتوں,  مزاحمتوں اور گالیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.

وہ باادب سے بے ادب گردانا چاہتا ہے. اور اکثر اوقات تو غداری اور بغاوت کا الزام بھی لگ جاتا ہے.
    گزرتے وقت کے  ساتھ ساتھ اہل قلم تین گروپ میں تقسیم ہوگئے ہیں. ایک سچائی کے پیرو کار,  ایک مصلحت کا شکار اور تیسرا گروپ ہے ان اہل قلم کا جن کے قلم  بک چکے ہیں اور ان کے الفاظ دوسروں کے مرہون منت بن چکے ہیں. ان سب کے لکھنے کے طریقوں میں اور بدلے میں لوگوں کی جانب سے ملنے والے رد عمل میں بہت فرق ہوتا ہے.
   ہم سب اور ہمارا معاشرہ  آزاد ہوتے ہوئے بھی ذہنی غلامی کے شکنجوں میں جھکڑے ہوئے ہیں اور ایک غلامانہ ذہنیت والے شخص کو سچائی بھی بمشکل ہضم ہوتی ہے.

کیونکہ اس کا ذہن  خود سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہونے کے باوجود بھی اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لانے میں معزول ہوتا ہے.  ایسے لوگوں کو وہی سچ لگتا ہے جو انہیں فیڈ کرایا جاتا ہے. ایسے لوگوں کے لیے ہی ایسے اہل قلم مسلط کئے جاتے ہیں جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا لبادہ اوڑھا کر  پیش کرنے میں ماہر ہوتے ہیں.اور بھیانک سچ یہ ہے کہ یہ لوگ بک چکے ہوتے ہیں ہاتھ اور قلم ان کے ہوتے ہیں مگر الفاظ ان کے نہیں ہوتے.

اور اس طرح کے قلمکاروں کو مختلف اعزازات سے نوازا جاتا ہے. مگر اس سچائی کے پیچھے ایک اور بھیانک حقیقت کار فرما ہے اور وہ ہے قلم کاروں کی معاشی تنگدستی اور مادیت پسندی ,جو کہ ایک قلم کار کو اس کے لفظوں کا سودا کرنے پر مجبور کرتے ہیں.ہمارہ معاشرہ اتنا منافقانہ روئے کا حامل ہے کہ قلم کار کو زیادہ تر مصلحت کا دامن تھامنا پڑتا ہے. اور یہی رویہ لکھاریوں کو جھوٹی کہانیاں,  جھوٹے افسانے اور جھوٹی شاعری کرنے پر اکساتی ہے.

اس سے قلم کار کو دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ وہ جو سچ وہ کھل کر نہیں لکھ سکتے,  وہ کہانی کی آ ڑ میں کہہ جاتے ہیں اور  دوئم ان کو اس بات کی بھی تسلی ہو جاتی ہے کہ معاشرے کی اصلاح میں انہوں نے کسی حد تک اپنا حصہ ڈال لیا ہے مگر لوگوں کی منافقت یہاں عیاں ہوجاتی ہے جب وہ کہانی,  افسانوں اور ڈراموں کے کرداروں کے دکھ درد کے لیے تڑپتے ہیں اور آ نسو بہاتے ہیں مگر حقیقی زندگی کے ان کرداروں کو ڈرامہ باز کا خطاب دیتے ہیں.
نہ جانے وہ کونسا دور ہوگا جب قلم کو پابہ زنجیر سے آ زاد کیا جائے گا اور سچ کا بول بالا ہوگا کیونکہ آج یرغمال قلم ہماری طاقت بننے کے بجائے ہمارا دکھ,  ہماری کمزوری اور ہماری مجبوری بن گیا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :