"ہیرو یا زیرو"

جمعرات 25 جون 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

رات کے دو بجے سڑک کے بیچوں بیچ مناسب فاصلوں پر روشن شمعیں, اماوس کی تاریکی کو کسی حد تک کم کرنے میں معاون ثابت ہو رہی تھیں. ان کی وجہ سے ارد گرد کا ماحول بہت خوبصورت اور حسین  لگ رہا تھا. غور کرنے پر معلوم ہوا کہ شمعیں اٹھائے یہ کچھ لوگ تھے جو شاید کوئی احتجاج کر رہے تھے. شمع بردار دھیمی رفتار سے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے مگر اچانک سامنے سے مسلح افراد نے ان پر حملہ کیا.
نتیجے میں کچھ لوگ زخمی ہوئے اور کچھ پابند سلاسل کر دیے گئے.
.......
""بہت اچھا کیا ان کے ساتھ" .ڈاکٹروں نے کورونا کے نام پر سیاست شروع کردی ہے, صرف کام سے بچنے کا بہانہ ہے اور بس, عوام مرتی ہے تو مرے".

(جاری ہے)

شاہد صاحب مسلسل ٹی وی پر خبریں دیکھ کر تبصرہ کیے جارہے تھے.
"مگر ابو وہ اپنی جگہ غلط نہیں ہیں. ان کی زندگی اہم ہے. صرف اپنے لیے نہیں ہم سب کے لیے بھی. ابو کل آپ نے نہیں دیکھا کہ وزیراعلی اور ان کے وفد نے اسپتال کے دورے کے دوران  این 95 ماسک پہن رکھے تھے اور ڈیوٹی ڈاکٹر نے عام سرجیکل ماسک, یہ تو ان کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے. شاہد کے بیٹے نے ڈاکٹرز کے دفاع میں کہا.
"جو بھی ہے بقول جج صاحب کے ڈاکٹر ڈگری لیتے ہوئے حلف اٹھاتے ہیں کے انہوں ہر حال میں کام کرنا ہے چاہے موت بھی آجائے اور اب ڈیوٹی سے بچنے کے لیے یہ سب ڈرامہ بازی کررہے ہیں".

شاہد صاحب پھر گویا ہوئے.
"چھوڑیں آپ لوگ کس بے کار کی بحث میں پڑ گئے ,دعا کریں کہ لاک ڈاؤن ختم ہو,مجھے  عید کی شاپنگ کرنی ہے. روزوں میں خریداری کرنا بہت  مشکل ہے". شاہد کی بیوی جھنجھلائی ہوئی آواز میں بولی
........
آئیسولیشن وارڈ کے آئی سی یو میں ڈاکٹر صمد وینٹیلیٹر پر  زندگی اور موت کی  جنگ لڑ تے لڑتے ہار گیا.
........
وہ بت بنی سامنے پڑی رنگ برنگی چوڑیوں اور زری والے کپڑوں کو دیکھ رہی تھی جو پچھلے ماہ اس کے شوہر ڈاکٹر صمد نے شادی کی پہلی سالگرہ کے دن اسے خرید کر دیے تھے.

اس نے دو سوٹ عید کے لیے سنبھال کر رکھے تھے. مگر اب وہ ان سب سے بے نیاز اپنے شوہر اور اپنی بیوہ ساس کی موت کا سوگ منارہی تھی, اسے تو یہ بھی فکر نہیں تھی کہ اس کا بھی کووڈ ٹیسٹ  مثبت آچکا ہے.
.........
یہ منظم شمع بردار کوئی چور ڈاکو اور لٹیرے نہیں بلکہ معاشرے کے مسیحا تھے جن کو ہیرو کا لقب دے کر  بغیر اسلحہ کے غیر مرئی دشمن کے خلاف میدان جنگ میں اتارا گیا .ان کی ڈیمانڈ تنخواہوں اور لگژری میں اضافہ نہیں بلکہ اپنی, اپنے فیملی اور اپنے  مریضوں کو کورونا کی بیماری سے بچانے کے لیے  پی پی ای کٹ کا مطالبہ تھا.

ہیرو کا خطاب دے کر انہیں انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے چھترول, زندان کی صعوبتیں اور عوام کی گالیوں کے تمغے  ملے .ڈاکٹر صمد بھی ان شمع برداروں میں شامل تھا. جو مناسب بنیادی سہولتیں نہ ملنے کے سبب اپنی فیملی کو اور خود کو کورونا سے نہ بچا سکے .

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :