"چربہ سازی"

پیر 29 جون 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

چربہ سازی یا سرقہ صرف ایک غلطی ہی نہیں بلکہ ایک گناہ بھی ہے کیونکہ جب آپ کسی کی تحریر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں تو یہ چوری کے زمرے میں آتا ہے مگر اس وقت یہ  ڈاکہ ڈالنے  کے مترادف بھی ہوسکتا ہے ,جب لکھاری ایک تو چوری کرے اور اوپر سے سینہ زوری بھی کرے اور اپنی چوری پر ڈٹ جائے. کبھی کبھی ایسا بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ کہیں الفاظ کی مماثلت نکل آئے یا پھر ایک جیسے آئیڈیاز سامنے آئیں .مگر کسی کی تحریر کو بالکل کاپی پیسٹ کرنا اور اصل رائیٹر کا نام یا کاپی پیسٹ لکھنے کے بجائے اپنا نام لکھنا انتہائی نازیبا حرکت ہے .
جب سے میں نے ادب کی دنیا میں باقاعدہ قدم رکھا ہے.  اس قسم کی چوری اور ڈاکہ زنی بہت زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے.

(جاری ہے)


   یہاں سب سے پہلے تو میں اپنے ایک نظم کے بارے میں کہنا چاہوں گی.

ایک دن میں فیس بک دیکھ رہی تھی کہ اچانک سے مجھے  اپنی کچھ دن پہلے لکھی گئی نظم "ماں" کسی اور کی وال پر نظر آئی. ستم ظریفی یہ کہ اس محترمہ نے مجھے بھی ٹیگ کیا ہوا تھا اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ کمنٹ میں بڑی دلیری سے اس شاعری کی داد اپنے نام سے  وصول رہی تھیں .غصہ تو بہت آیا مگر صبر کرکے اس کے کمنٹ بکس میں بس اتنا کہا کہ بہت شکریہ میری نظم کو پسند کرنے اور شئیر کرنے کا اور اپنے وال کی سکرین شاٹ بھی لگا دی.

سوشل میڈیا کی دنیا میں سرقہ اور چربہ سازی اب اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے . لوگ دھڑلے سے دوسروں کی تحریر کو اپنے نام سے شائع کرتے  ہیں اور تعریفیں بٹورتے ہیں.
یہاں میں کچھ ایسی ہی تحریروں کا ذکر کروں گی .مگر نام لیے بغیر تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور وہ اپنی اصلاح بھی کرسکیں .
تین چار سال پہلے  میں نے فیس بک پر جاوید چودھری کی پیج پر ایک تحریر  "آج ہم پزا نہیں کھائیں گے" پڑھی.

مجھے یہ تحریر بہت اچھی لگی اور ذہن کے کسی گوشے میں یہ تحریر جیسے محفوظ ہوگئی. مگر  رائیٹر کا نام یاد نہیں رہا .پھر ایسا ہوا کہ ایک سال پہلے یہی تحریر میں نے دوبارہ فیس بک پر پڑھی مگر جب کمنٹ میں کچھ لوگوں نے اس کے رائیٹر کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے اسے دھڑلے سے اپنی تحریر بتا کر سب کو خاموش کرادیا . خیر ہم نے بھی چپ سادھ لی کہ ہوسکتا ہے یہ انہی کی تحریر ہو کیونکہ وہ ایک اچھے لکھاری ہیں اور تحریری مقابلوں میں اکثر و پیشتر پوزیشن بھی لیتے ہیں .
     ایک بار پھر یہی سب دوبارہ اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا کے  ایک ادبی گروہ کے مقابلے میں عید کے موضوع پر لکھنا تھا تو پھر اسی لکھاری نے سعادت حسن منٹو  کی تحریر "عید گاہ" کو ڈھٹائی سے اپنی تحریر کا نام دے کر مقابلے کے لیے بھیجا.

مگر  قسمت نے دوبارہ اس کا ساتھ نہ دیا اور اصل تحریر اور اس کے رائیٹر کا نام  سامنے آنے پر  ان کی تحریر مقابلے سے خارج کردی گئی مگر شاید کچھ لوگ سبق نہیں سیکھتے . اب کے بار پھر ایسا ہی ہوا کہ مریم صدیقی کی تحریر کو اپنے نام سے شائع کرایا اور پھر چوری ثابت بھی  ہوگئی.
   اسی دوران ایک اور لکھاری نے بھی یہی حرکت کی اور جاوید چودھری کی ایک مشہور تحریر.....

کو اپنی تحریر کہا اور بعد میں ان صاحب کی چوری بھی پکڑی گئی . انہوں نے اپنی غلطی مان لی. اس کے علاوہ پھر ایک عجیب واقعہ رونما ہوا کہ ایک ہی دن میں دو مختلف آئی ڈیز پر ایک ہی تحریر دیکھی جس میں پانچویں کلاس کی ٹیچر مس عائشہ کی اپنے شاگرد کے ساتھ اچھے رویے کی وجہ سے وہ اسے اپنی شادی میں خصوصی طور پر ٹکٹیں بک کراکے بلاتا ہے اور سب سے اس کا تعارف اپنی ماں کے طور پر کراتا ہے.
  مگر جب میں نے یہ کہانی پڑھی تو میرے جاسوسانہ دماغ نے پھر مجھے کہا کہ یہ کہانی میری نظروں سے پہلے گزر چکی ہے اور میرے دماغ کے نہاں خانوں میں پوشیدہ ہے .

تجسس کے مارے میں نے دونوں رائیٹرز سے ان کے وال پر پوچھا کہ کیا یہ آپ کی تحریر ہے .اور دونوں کا ڈھٹائی بھرا جواب موصول ہوا کہ جی ہاں یہ ہماری تحریر ہے .حیرت اس بات پر کہ ایک تحریر دو رائیٹرز , خیر دل کو تسلی نہیں ہوئی تو فورا گوگل پر سرچ کیا. یہ تحریر مختلف جگہ پر اور پیجز پر سن دو ہزار سترہ اور اٹھارہ سے شئیر ہورہی ہے . کسی نے انتخاب لکھا ہے تو کسی نے کوئی نام نہیں لکھا ایک جگہ نیچے آدم زاد لکھا نظر آیا .

مگر وہاں اس کی اشاعت کا مقصد تعلم دینا تھا .
میرا تو سر گھوم گیا کہ یہ کیسا رحجان ہے کیا یہ ہے وہ ادب جس پر ہم سب کام کر رہے ہیں. کسی بھی اچھی تحریر کی پذیرائی اور شئیر کرنا بری بات نہیں ہے. بری بات یہ ہے کہ آپ اس پر اپنے نام کا لیبل لگائیں. کوشش کریں کہ شئیر کی ہوئی تحریر پر رائیٹر کا نام ضرور لکھیں, اگر رائیٹر کا نام نہیں معلوم تو انتخاب یا کاپی پیسٹ ضرور لکھیں.

یا کم سے کم کمنٹ میں پوچھنے پر یہ تو بتادیں کہ انتخاب ہے. کیونکہ آج کل کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے اور ایسے مواد کی چوری فورا پکڑی جاسکتی ہے. اس لیے کسی بھی قسم کی شرمندگی کا سامنا کرنے سے بہتر ہے کہ اس قبیح عمل سے گریز کیا جائے. کسی بھی تحریر کے ساتھ اصل لکھاری کا نام یا انتخاب اور کاپی پیسٹ لکھنے سے آپ کی مقبولیت یا قابلیت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ آپ کا قد اونچا ہوگا . کیونکہ ہم سب سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں . علم کے قدردان ہی علم کو آگے بڑھاتے ہیں. اور خود بھی سیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی سکھاتے ہیں. سراہے جانا اور تعریف سننا ہر ایک کو اچھا لگتا ہے .اس لیے لکھاری کے لیے بھی یہ اہم ہے کہ سچی تعریف سننے کے لیے کم لکھے مگر اپنا لکھے .

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :