
آ جا ، تے بہہ جا سائیکل تے
ہفتہ 13 نومبر 2021

ڈاکٹر شاہد صدیق
(جاری ہے)
سائیکل کہنے کو تو ایک غریب کی سواری ہے مگر اس نے کس کس کو نہیں نوازا یہ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ غریب کی سواری سے پجیرو کے سفر سب نے دیکھے ہیں ۔کسی نے اس پہ بیٹھ کے انتخابی تحریک چلائی تو کسی نے سیاست چمکائی۔ کسی کا انتخابی نشان بنا تو کسی نے ووٹ کے عوض اپنے ووٹر کو سائیکل پکڑائی ۔کسی نے اس پہ بیٹھ کے چندہ مانگا تو کسی نے تین دن تین رات مجعے میں چلا کے مقدور پھر روزی روٹی کمائی۔ کوئی اس پہ صدارتی محل گیا تو کسی نے اس پہ دکان سجائی۔ کسی نے اس پہ گانے لکھے تو کسی نے اس پر اپنی دلدار ، جان ِ جاناں بٹھائی۔انسانی تاریخ کا یہ حصہ سائیکل وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی اور مشینی حکمرانی میں معدوم ہوتا گیا۔پاکستان میں سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لی تو سائیکل کی گھنٹی کی آواز اور پنکچر لگانے کا پیشہ بھی ختم ہونے لگا۔پھر یہ پنکچر سیاست میں وارد ہوئے اور دھاندلی دھاندلی کے شور میں کانوں پڑنے لگے۔ اب جب پٹرول کی قیمت نے آسمان چھوئے تو اس سائیکل نے ایک طنز کا وار بن کے کسی کے سینے جلائے تو کہیں سوشل میڈیا کی زینت بنائے خود کو ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کا متبادل قرار دیا۔یقینا" اس مہنگائی نے سب کے پاؤں کے نیچے سے زمین اور سر سے سایہ چھین لیا ہے۔ قہر کی اس دھوپ نے بھی میدان حشر کا روپ دھار لیا ہے جہاں مہنگائی میں کوئی رشتہ یاد ہے نہ محبت بس ایک لگن ہے کہ اگر مہنگائی کی عفریت سے معافی مل جائے تو کامیابی قسمت ٹھہرے۔ کہیں ماں باپ لخت جگر کو زہر کے گھونٹ پلا کے موت کا سکون ڈھونڈ رہے ہیں تو کہیں بھکاری بنے دکھائی دیتے ہیں ۔کیونکہ انہیں یہی بتایا گیا ہے کہ سکون قبر میں ہے۔ شہدا کی زمینوں کے قابضین ہوں یا حکومتی قانون سے بالاتر اشرافیہ انہوں نے تو اس مہنگائی کو سائیکل کی پچھلی نششت پہ بٹھا کےاسلام آباد کی جانب مارچ کا قصد کیا ہے- اسلام آباد میں حاکم نہایت ہی ارزاں سواری ہیلی کاپٹر پہ سفر کرتے حاکم کبھی خود لطف اندوز ہو رہے ہیں اور کہیں پہ ان کے رشتہ دار ہیلی کاپٹر کی سیر کو آنکھوں میں بسائے اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔ گو ایک میلہ ہے۔ وہ وزیر اعظم جس نے سائیکل کی سواری کا عندیہ دیا تھا اب اسی ہیلی کاپٹر میں رل رہا ہے اور اسے اپنی من پسند سواری میسر نہیں۔سب نے سائیکل اس لئے استعمال کی کہ وہ اپنے ووٹر کے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکیں اور جب اس کے اپنے گھر میں دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں تو وہ وہ عوام کی روزی روٹی پہ پہرے لگا دے اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرے۔ چینی کے کارخانوں کے مالکان سب پارلیمان میں بیٹھے ہیں اور عوام در بدر۔ بجلی آئے مہینے بڑھتی ہے اور اب بھی دو روپے سے زیادہ کا اضافہ ستمبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ میں کر دیا گیا ہے لیکن نہ تو اس کا بوجھ حکومتی ایوانوں پہ پڑا اور نہ ہی ان کے دفاتر پر ۔ یہ بوجھ تو عوام کی جیبوں پر ہے۔ پٹرول کہنے کو تو سستا ہے لیکن اس کا خریدار دنیا میں غریب تر ہے۔اب تو سائیکل کی قیمت بھی آسمانوں کو چھو رہی ہے اور اس غریب کی پہنچ سے اتنی باہر ہے جتنی کہ افلاک کی بلندی۔میرے خیال میں تو یہ سائیکل اب درمیانے طبقے کی سواری ہے اور غریب کی ایک تمنا کہ جس کے سپنے دیکھتے ہوئے وہ گائے کہ
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر شاہد صدیق کے کالمز
-
چرخ کا سنگ فساں روتا ہے
پیر 10 جنوری 2022
-
جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
سوتے،جاگتے ضمیر
جمعرات 18 نومبر 2021
-
آ جا ، تے بہہ جا سائیکل تے
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
بائیڈن کی بھیانک منصوبہ بندی
پیر 23 اگست 2021
-
اخلاقیات کا مدفن
پیر 9 اگست 2021
-
ارتقائے معکوس
بدھ 28 جولائی 2021
-
اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی
جمعرات 1 جولائی 2021
ڈاکٹر شاہد صدیق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.