آ جا ، تے بہہ جا سائیکل تے

ہفتہ 13 نومبر 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

ملک کے حاکموں ، حکمرانوں اور آقاؤں کے گوداموں سے جب برآمد ہوتے چینی کے تھیلے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اب انسان انسان کا دارو نہیں ہوتا   بلکہ خود  غرضی میں وہ رزق پہ یوں سانپ کی طرح بیٹھ گیا ہے کہ اسے کسی کے بھوکے پیٹ کی پرواہ نہیں۔مایوسی اس وقت اپنی بلندیوں کو چھو جاتی ہے جب اہل قلم و دانش کو علم و ٹک ٹاکر میں موازنہ کرتے ہوئے پاتا ہوں ۔

جہاں عقل چاند سے ہو کے واپس آئی تو سائیکل پہ بٹھا دی گئی ہے اسی طرح فہم و فراست بھی گھاس چرتی بھول گئی ہے اشرف المخلوقات کی پہلی خواہش کھانا نہیں بلکہ وہ راہنمائی ہے جو سیدھا راستہ دکھاتی اور متعین کرتی ہے ۔ پہیہ تاریخ کی بہت بڑی ایجاد تھی ۔ اسی پہیے سے اس سائیکل نے جنم لیا جس کا پیڈل ہاتھ میں لئے لندن میں بیٹھے ووٹ کو عزت دینے والے مفاہمت یا مزاحمت کسی بھی طریقے سے پھرپیڈل میں  سائیکل ڈلوانے کے درپے ہیں اور قلم لکھ رہا ہے کہ دو دفعہ عدالتوں سے سزا پانے والے ۔

(جاری ہے)

جیلوں سے بیرون ملک منتقل ہونے والے اپنے تانے بانے ملاتے  لائنیں سیدھی کرتے ،تخت کے امیدوار ہیں ۔ماضی کی تاریخ کو بر ملآ ماننے اور دھاندلی سے سائیکل پہ سواری کرنے والے اس بار شفاف انتخابات کی مالا جھپتے حقیقت میں خود کو بہتر خدمت گار کے طور پر  پیش کرنے کے متمنی ہیں ۔ ادھر موجودہ حاکم چینی ۔ پٹرول اور بجلی کے بم لئے عوام کو گھاس نہیں تو غربتوں کی نشانی اصل سائیکل کی گدی  پر بٹھا دینے کے متمنی  ہیں۔


سائیکل  کہنے کو تو ایک غریب کی سواری  ہے مگر اس نے کس کس کو نہیں نوازا یہ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔  غریب کی سواری سے پجیرو کے سفر سب نے دیکھے ہیں ۔کسی نے اس پہ بیٹھ کے انتخابی تحریک چلائی تو کسی نے سیاست چمکائی۔ کسی کا انتخابی نشان بنا تو کسی نے ووٹ کے عوض اپنے ووٹر کو  سائیکل پکڑائی ۔کسی نے اس پہ بیٹھ کے چندہ مانگا تو کسی نے تین دن تین رات  مجعے میں چلا کے  مقدور پھر روزی روٹی کمائی۔

کوئی اس پہ صدارتی محل گیا تو کسی نے اس پہ دکان سجائی۔ کسی نے اس پہ گانے لکھے تو کسی نے اس پر اپنی دلدار ، جان ِ جاناں بٹھائی۔انسانی تاریخ کا یہ حصہ سائیکل وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی اور مشینی حکمرانی میں معدوم ہوتا گیا۔پاکستان  میں سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لی تو سائیکل کی گھنٹی کی آواز اور پنکچر لگانے کا پیشہ بھی ختم ہونے لگا۔

پھر یہ پنکچر سیاست میں وارد ہوئے اور دھاندلی دھاندلی کے شور میں کانوں پڑنے لگے۔ اب جب پٹرول کی قیمت نے آسمان چھوئے تو اس سائیکل نے ایک طنز کا وار بن کے کسی کے سینے جلائے تو کہیں  سوشل میڈیا کی زینت بنائے خود کو ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کا متبادل قرار دیا۔یقینا" اس مہنگائی نے سب کے پاؤں کے نیچے سے زمین اور سر سے سایہ چھین لیا ہے۔

قہر کی اس دھوپ نے بھی میدان حشر کا روپ دھار لیا ہے جہاں مہنگائی میں کوئی رشتہ یاد ہے نہ محبت بس ایک لگن ہے کہ اگر مہنگائی  کی عفریت سے معافی مل جائے تو کامیابی قسمت ٹھہرے۔ کہیں ماں باپ لخت جگر کو  زہر کے گھونٹ پلا کے موت کا سکون ڈھونڈ رہے ہیں  تو کہیں بھکاری بنے دکھائی دیتے ہیں ۔کیونکہ انہیں یہی بتایا گیا ہے کہ سکون قبر میں ہے۔ شہدا کی زمینوں کے قابضین ہوں یا حکومتی قانون سے بالاتر اشرافیہ انہوں نے تو اس مہنگائی کو سائیکل کی پچھلی نششت پہ بٹھا کےاسلام آباد کی جانب مارچ کا قصد کیا ہے- اسلام آباد میں حاکم نہایت ہی ارزاں سواری ہیلی کاپٹر پہ سفر کرتے حاکم کبھی خود لطف اندوز ہو رہے ہیں اور کہیں پہ ان کے رشتہ دار ہیلی کاپٹر کی سیر کو آنکھوں میں بسائے اپنی باری کے انتظار میں ہیں۔

گو ایک میلہ ہے۔ وہ وزیر اعظم جس نے سائیکل کی سواری کا عندیہ دیا تھا اب اسی ہیلی کاپٹر میں رل رہا ہے اور اسے اپنی من پسند سواری میسر نہیں۔سب نے سائیکل اس لئے استعمال کی کہ وہ اپنے ووٹر کے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکیں اور جب اس کے اپنے گھر میں دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں تو وہ وہ عوام کی روزی روٹی پہ پہرے لگا دے اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرے۔

چینی کے کارخانوں کے مالکان سب پارلیمان میں بیٹھے ہیں اور عوام در بدر۔ بجلی آئے مہینے بڑھتی ہے اور اب بھی دو روپے سے زیادہ کا اضافہ ستمبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ میں کر دیا گیا ہے لیکن نہ تو اس کا بوجھ حکومتی ایوانوں پہ پڑا اور نہ ہی ان کے دفاتر پر ۔ یہ بوجھ تو عوام کی جیبوں پر ہے۔ پٹرول کہنے کو تو سستا ہے لیکن اس کا خریدار دنیا میں غریب تر ہے۔

اب تو سائیکل کی قیمت بھی آسمانوں کو چھو رہی ہے اور اس غریب کی پہنچ سے اتنی باہر ہے جتنی کہ افلاک کی بلندی۔میرے خیال میں تو یہ سائیکل اب درمیانے طبقے کی سواری ہے اور غریب کی ایک تمنا کہ جس کے سپنے دیکھتے ہوئے وہ گائے کہ
آ جا ، تے بہہ جا سائیکل تے
میری تو یہی گزارش ہے کہ خدارا اس عوام پہ کچھ رحم کیجئے اور ان جیبوں پہ بوجھ ڈالیے  جنہوں نے مال بنا کے اپنی جیبیں بھری ہیں اور  روزانہ ضمانتیں لیتے کہتے ہیں کہ انہیں پتہ ہی انہیں کی ان کے  بنک اکاؤنٹس میں کون پیسے  ڈال گیا یا پھر اس عوام کا  بھی اکاؤنٹ کھول دیجئے جس کے پاس سوائے اکاؤنٹ نمبر کے اور کچھ نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :