
اخلاقیات کا مدفن
پیر 9 اگست 2021

ڈاکٹر شاہد صدیق
(جاری ہے)
ڈی جی اسپورٹس سے جب اس ایک ارب روپے کا پوچھا گیا کہ جو انہیں ہر سال کھیل اور کھلاڑی کو فروغ دینے کو ملتے ہیں تو ان کا جواب مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ سر پیٹنے لائق تھا ۔
کہنے لگے ایک ارب روپے تو سال کی ہماری تنخواہ بمشکل پورا کرتے ہیں انہیں کھلاڑیوں پہ کیسے استعمال کیا جائے۔ یہ سن کر مجھے تو شاعر مشرق کے وہی الفاظ یاد آئے کہجس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دو
نیرج چوپڑا جس نے جیولن تھرو میں اولمپکس کا گولڈ میڈل جیتا اس کا ہیرو پاکستان کا وہ نوجوان تھا جس کو آج لوگ ارشد ندیم کے نام سے جانتے ہیں۔ میاں چنوں کے نواحی گاؤں 101/15 ایل سے تعلق رکھنے والا چوبیس سالہ جوان قوم سے معذرت خواہ ہے کہ وہ ان کے لئے تمغہ نہ جیت سکا لیکن شاید یہ معافی اس قوم کو مانگنا چاہیئے تھی جو اس کو پہچان نہ سکی ۔ اب ہر طرف سے وزیروں ، مشیروں کی داد وہ مکا ہے جو انہیں لڑائی کے بعد یاد آیا ہے ۔ اس کی مدد کے لئے دس لاکھ کے انعام کا اعلان شاید اس کی تربیت پہ کوئی خرچ کرتا تو ارشد ندیم بھی آج نیرج چوپڑا کے ساتھ فتح کے چبوترے پہ کھڑا ہاتھ ہلا رہا ہوتا کیونکہ ٹیلی ویژن پہ کمنٹری کرتی خاتون ماہر بار بار کہہ رہی تھی کہ اگر یہ دو میٹر کا فرق اپنے اور میڈل کے درمیان کوئی نکال سکتا ہے تو وہ ارشد ندیم ہے جس کے جیولن کی نوک ذرا اونچی ہے جس کی وجہ سے جیولن اوپر تو جاتا ہے لیکن فاصلہ زیادہ طے نہیں کرتا۔ دنیا کے سامنے کھڑا ارشد ندیم شاید کچھ گھبرایا بھی تھا اور اس سے زیادہ اس کے وہ کوچز سوجھ بوجھ کھوئے ہوئے تھے جن کا کام جاپان جانا تو تھا لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باریکیاں نوٹ کرنا اور بتانا نہیں تھا کیونکہ ان سے وہ خود نا آشنا تھے۔ دنیا کے سامنے کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے جی جگرا چاہیئے ۔ارشد ندیم جب آخری دفعہ جیولن لے کے دوڑا تو پاؤں اس لائن کو ہی ٹچ کر گیا جو ایک آخری حد پرلگی ہوتی ہے- کاش اس وقت کوئی اسے حوصلہ دیتا لیکن اس کے ساتھ کہاں کوئی ماہر تھا وہ تو سب اک خانہ پری تھی جو کھیل کے سرپرستوں نے صرف جاپان سیر کو بھیجی تھی۔
25 جولائی 2021ء کی دوپہر طلحہ طالب کی بات کروں تو اپنے بل بوتے پہ ٹوکیو پہنچنے والا دو کلو گرام کے وزن کی کمی کی وجہ سے اپنے سینے پہ تمغہ نہ سجا سکا۔یہ دو کلو گرام وہ وزن تھا جو اس قوم کی تمناؤں کا تھا لیکن وہ اس کو اٹھانے میں سانجھے دار نہ تھی۔ واپسی پہ اس ہیرو کی خواہش کیا تھی ایک مستقل نوکری۔ وہ نوکری جس کے حصول کے لئے تعلقات چاہییں یا سفارش ۔ رقم چاہیئے یا رشوت۔ کیونکہ نوکریوں کا بھاؤ تاؤ کیسے لگتا ہے اب کون اس سے واقف نہیں ہے کہ مٹھی اور جیب گرم کرنے کے علاوہ کوئی میرٹ ایسا نہیں ہے جو آپ کو اس کا اہل بنا سکے۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ڈاکٹر شاہد صدیق کے کالمز
-
چرخ کا سنگ فساں روتا ہے
پیر 10 جنوری 2022
-
جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
سوتے،جاگتے ضمیر
جمعرات 18 نومبر 2021
-
آ جا ، تے بہہ جا سائیکل تے
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
بائیڈن کی بھیانک منصوبہ بندی
پیر 23 اگست 2021
-
اخلاقیات کا مدفن
پیر 9 اگست 2021
-
ارتقائے معکوس
بدھ 28 جولائی 2021
-
اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی
جمعرات 1 جولائی 2021
ڈاکٹر شاہد صدیق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.