اخلاقیات کا مدفن

پیر 9 اگست 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

اولمپکس 2020ء جاپان کے شہر ٹوکیو کی زینت بنے – ہوئے تو یہ 2021ء میں لیکن کرونا کی وبا کی وجہ سے پچھلے سال ملتوی ہوئے تو 2020ء کے اولمپکس ہی کہلائے۔ پاکستان کے دس رکنی دستے نے شمولیت کی – آئے تو سبھی میڈلز کے بغیر لیکن سوچ کے دھارے کو وہ سب کچھ دے گئے جس سے ہم نا آشنا تھے۔ جب سوچ کو پرواز مل جائے تو زمانے اور تاریخ بدل جایا کرتی ہے۔

مفلس و لاچار اتھلیٹس نے پاکستان کی نمائندگی تو ضرور کی لیکن ہماری تضحیک نہیں کی ۔ ہمارا سر فخر سے بلند کیا تو شاید ان کو ڈوب مرنے کو وہ پانی بھی مہیا کیا جو کھیل کی ترویج کے لئے بنے ادارے  ہیں ۔ جن کے کرتا دھرتا تنخواہ لیتے ہیں لیکن ان اداروں کے ثمر ان نوجوانوں تک نہیں پہنچاتے  جو ایسے مقابلوں میں وطن کی شان ہوا کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ڈی جی اسپورٹس سے جب اس ایک ارب روپے کا پوچھا گیا کہ جو انہیں ہر سال کھیل اور کھلاڑی کو فروغ دینے کو ملتے ہیں تو ان کا جواب مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ سر پیٹنے لائق تھا ۔

کہنے لگے ایک ارب روپے تو  سال کی ہماری تنخواہ بمشکل پورا کرتے ہیں انہیں کھلاڑیوں پہ کیسے استعمال کیا جائے۔ یہ سن کر مجھے تو شاعر مشرق کے وہی الفاظ یاد آئے کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہء  گندم کو جلا  دو
نیرج چوپڑا جس نے جیولن تھرو میں اولمپکس کا گولڈ میڈل جیتا اس کا ہیرو پاکستان کا وہ نوجوان تھا جس کو آج لوگ ارشد ندیم کے نام سے جانتے ہیں۔

میاں چنوں کے نواحی گاؤں  101/15 ایل سے تعلق رکھنے والا چوبیس سالہ جوان قوم سے معذرت خواہ ہے کہ وہ ان کے لئے تمغہ نہ جیت سکا لیکن شاید یہ معافی اس قوم کو مانگنا چاہیئے تھی جو اس کو پہچان نہ سکی ۔ اب ہر طرف سے وزیروں ، مشیروں کی داد وہ مکا ہے جو انہیں لڑائی کے بعد یاد آیا ہے ۔ اس کی مدد کے لئے دس لاکھ کے انعام کا اعلان شاید اس کی تربیت پہ کوئی خرچ کرتا تو  ارشد ندیم بھی آج نیرج چوپڑا کے ساتھ فتح کے چبوترے پہ کھڑا ہاتھ ہلا رہا ہوتا کیونکہ ٹیلی ویژن پہ کمنٹری کرتی خاتون ماہر  بار بار کہہ رہی تھی کہ اگر یہ دو میٹر کا فرق اپنے اور میڈل کے درمیان کوئی نکال سکتا ہے تو وہ ارشد ندیم ہے جس کے جیولن کی نوک ذرا اونچی ہے جس کی وجہ سے جیولن اوپر تو جاتا ہے لیکن فاصلہ زیادہ طے نہیں کرتا۔

دنیا کے سامنے کھڑا ارشد ندیم شاید کچھ گھبرایا بھی تھا اور اس سے زیادہ اس کے وہ کوچز سوجھ بوجھ کھوئے ہوئے تھے جن کا کام جاپان جانا  تو تھا لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باریکیاں نوٹ کرنا اور بتانا نہیں تھا کیونکہ ان سے وہ خود نا آشنا تھے۔ دنیا کے سامنے کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے جی جگرا چاہیئے ۔ارشد ندیم جب آخری دفعہ جیولن لے کے دوڑا تو پاؤں اس لائن کو ہی ٹچ کر گیا جو ایک آخری حد پرلگی ہوتی ہے- کاش اس وقت کوئی اسے حوصلہ دیتا لیکن اس کے ساتھ کہاں کوئی ماہر تھا وہ تو سب  اک خانہ پری تھی جو کھیل کے سرپرستوں نے  صرف جاپان سیر کو بھیجی تھی۔


25 جولائی 2021ء کی دوپہر طلحہ طالب کی بات کروں تو  اپنے بل بوتے پہ ٹوکیو پہنچنے والا دو کلو گرام کے وزن کی کمی کی وجہ سے اپنے سینے پہ تمغہ نہ سجا سکا۔یہ دو کلو گرام وہ وزن تھا جو اس قوم کی تمناؤں کا تھا لیکن وہ اس کو اٹھانے میں سانجھے دار نہ تھی۔ واپسی پہ اس ہیرو کی خواہش کیا تھی ایک مستقل نوکری۔ وہ نوکری جس کے حصول کے لئے تعلقات چاہییں یا سفارش ۔

رقم چاہیئے یا رشوت۔ کیونکہ نوکریوں کا بھاؤ تاؤ کیسے لگتا ہے اب کون اس سے واقف نہیں ہے کہ مٹھی اور جیب گرم کرنے کے علاوہ کوئی میرٹ ایسا نہیں ہے جو آپ کو اس کا اہل بنا سکے۔
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام  گلستاں کیا ہو گا
اس مضمون کے توسط سے میرا پیغام ہے طلحہ طالب اور ارشد ندیم کے نام کہ ہم آپ کے قرض دار ہیں اس ایک لمحے کے لئے جس میں ہم سب نے ایک قوم بن کے آپ کے لئے رب کے حضور دعائیں کیں۔

تم کب ہارے ہو اس ایک لمحے میں پورا پاکستان جیتا ہے تم جیتے ہو ۔ آس امید جیتی ہے ہاں اگر ہارا ہے تو یہ نظام اور اس کو چلانے والے وہ نا اہل ہارے ہیں جن کی دیں مبارکبادیں بے وقت کی وہ راگنی لگ رہی ہیں۔ جن کا مقصد ان کی اپنی مشہوری اور ان کی قوم پرستی کا دکھاوا ہے۔ یہاں ریٹائر کون ہوتا ہے یہاں تو وہ تعلق بنتے ہیں جن کی بدولت آپ وہ لازم و ملزوم ٹھہرتے ہیں کہ آپ کے بغیر گزارا ممکن نہیں ہوتا اگر ایسا نہ ہوتا تو ریٹائرمنٹ کے بعد ایک ہی ادارے کے سرپرست ہر طرف نظر نہ آتے – یہاں کہاں ہے وہ نوجوان خون، وہ ماہر جو بیرون ملک بیٹھے ہیں کیونکہ انہیں یہاں پر ملازمت دیتے وقت بہت کچھ ایسا سامنے لایا جاتا ہے کہ ان پہ اٹھیں انگلیاں انہیں ان کو اس مقام سے ہی گرا دیتی ہیں جو انہیں دیار غیر میں میسر ہے۔

وزیر اعظم صاحب خود بھی ایک کھلاڑی ہیں لیکن ہاکی کے سر پرست جناب منظور جونیئر کی اگر باتیں سنیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہمارے پاس اپنے قومی کھیل کی ترقی کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں لیکن اس کے علاوہ ہر میدان اور ہر شعبے میں وہ وہ دیہاڑیاں لگتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ سچی بات ہے  ملک پاکستان تجربہ اور وسیع تر قومی مفاد میں بنا وہ مدفن ہے جس میں ہر خواب کو دفنانے کے لئے تجربہ کار گورکن موجود ہیں – یہ اخلاقیات کا وہ مدفن ہے جس میں زندگی پھونکنے والا کوئی نہیں ۔ لیکن دفنا کے تالیاں بجانے والے بہت ہیں۔ مگر آج  ہر پاکستانی کی یہی دعا ہے کہ اسے ایک میر کارواں چاہیئے جو اپنے غم کی بجائے ان کے غم میں ساتھ جئے ساتھ مرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :