جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں

ہفتہ 8 جنوری 2022

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

آئی ایس پی آر کے سربراہ جناب میجر جنرل بابر ندیم اپنے الفاظ کے ناپ تول میں پورا انصاف کر رہے تھے ۔ واقعی وہ قوم کے سپوت ہیں جن کے سر ملکی سلامتی کی ذمہ داری ہے ۔ بے شک ایسی فوج کے ترجمان کو ایسا ہی دبنگ صفت ہونا چاہیے ۔ ان کی ڈیل اور ڈھیل کی باتوں نے مجھے سوچ میں ڈال دیا کہ حقیقت کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو ڈیل کی باتیں کریں ان سے اس کا جواز بھی پوچھیں لیکن ہمارے تو پر جلتے ہیں صاحب کہ یہ نازک سے مسئلے کہیں مسئلہ ہی کھڑا نہ کر دیں ۔

  ہم اس قابل کہاں ۔ یہ بھی ہماری عزت افزائی ہے کہ فریقین جواب  دینے کی بجائے ہم سے ثبوت مانگتے ہوئے شاید ہماری سوچ کی گہرائی یا نجوم شناسی کو آزماتے ہیں وگرنہ جو سچائی وہ جانتے ہیں ہمیں اس کا ادراک کہاں ۔ جو کھوج لگانے کی وہ طاقت رکھتے ہیں اس کی استطاعت ہم میں کہاں ۔

(جاری ہے)

سانحہ مشرقی پاکستان دیکھوں تو مجھے آج تک فریقین نے  ہی الجھایا ہوا ہے ۔

ایک سے پوچھوں تو دوسرے کو ذمہ دار پاؤں ۔جناح سے فاطمہ جناح تک کے عہد کو پرکھنے بیٹھوں تو بھی  چپ کرا دیا جاؤں ۔ آپ ملکی سلامتی کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں ۔ وطن عزیز آپ کی قربانیوں کی وجہ سے قائم و دائم ہیں ۔ آپ کہتے ہیں کہ ملکی دفاع کی مضبوطی اور ملکی معشیت لازم و ملزوم ہیں ۔ تو میں سوچتا ہوں کہ ملکی  معشیت اور ملکی دفاع کو ایک جگہ رکھنے والے اس معیشت میں نقب لگا کے بالواسطہ ملکی دفاع پہ ضرب لگانے والوں کو کیوں بے نقاب نہیں کرتے ۔

چینی ۔ بجلی ۔ آٹا اور پٹرولیم کے بحران پیدا کرنے والے کیوں آج بھی دندناتے ہوئے ملکی معاملات کی منصوبہ بندی میں اہم ہیں ۔ ملکی دفاع تو آپ کی ذمہ داری ہے اور سرحدوں کے ساتھ ساتھ سرحدوں کے اندر سرحدوں کی حفاظت آپ کے دائرہ اختیار میں ہے ۔ آپ نے نواز شریف صاحب سے ڈیل کی بات کی ۔ آپ نے برملآ  کہا کہ ادارے کسی ڈیل کا حصہ نہیں ہیں ۔آپ کی سچائی پہ کس کو شک لیکن کچھ ایسے شبہات سر اٹھاتے ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں آپ اس پہ بھی روشنی ڈال دیتے کہ پلیٹلٹس کی اس کمی کے محرکات کیا تھے ۔

کون کون اس کھیل کا وہ کرادار تھا  کہ جس کی  بے مثال اداکاری پہ ایک جیل کا قیدی ۔ جیل سے ہسپتال ۔ ہسپتال سے اپنے گھر آئی سی یو میں  پہنچا ۔ یہ معجزہ بھی تو اسی آنکھ نے دیکھا کہ آئی سی یو سے مریض پاؤں پہ چلتا ایمبولینس اور ایمبولینس سے اپنے قدموں پہ ائر ایمبولینس میں داخل ہوا ۔ ائر ایمبولینس میں پھلوں کے سامنے جب بٹھایا گیا تو لندن پہنچ کے سیدھا گھر گیا ۔

یقین مانئے میرے پچیس سال کے طبی تجربے میں پہلا واقعہ ہے کہ مریض ایمبولینس میں ہی ٹھیک ہو گیا اور ایمبولینس سے اترا تو چلتا ہوا گھر گیا ۔ وہ گھر جس کا اسے خود بھی نہیں پتہ کہ کس کا ہے ۔ ایسے کمالات سے محترم نواز شریف صاحب کی زندگی بھری پڑی ہے ۔ مرحوم میجر جنرل حمید گل صاحب دار فانی کو کوچ کر گئے ہیں لیکن ان کے الفاظ آج بھی گونجتے ہیں ۔

ائر مارشل اصغر خاں کا کیس کیوں سر اٹھاتا ہے اور پھر سلا دیا جاتا ہے کیوں پیسے دینے اور لینے والوں کو سامنے لا کے قوم کو بتایا  نہیں جاتا کہ حقیقت کیا ہے ۔ سر پہ بیروں کی ٹوپی سے شاہی تاج تک، جنرل آصف نواز سے جنرل وحید کاکڑ صاحب تک جو سوالات آج بھی ہمارے راستے میں آ کھڑا ہوتے ہیں ان کا جواب کہاں پوشیدہ ہے اسے بھی آشکار کیا جائے ۔ محترم رفیق حریری کس کس کے درمیان معاہدے لہراتے پاکستانیوں کے درمیان پائے گئے تھے ۔

موجودہ ایکسٹینشن پہ نواز شریف صاحب کی جماعت کس لئے ہاتھ باندھے قومی فریضہ انجام دے رہی تھی ۔ ملکی اسمبلیوں میں فیصلہ سازی کے دن کیوں ارکان اسمبلی کی تعداد کیسے پوری ہوتی جاتی ہے ۔ کیوں وزیراعظم عمران خان صاحب قوم کو کبھی بتاتے ہیں ملکی اداروں اور حکومت کے درمیان تعلقات مثالی ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ محترم نواز شریف صاحب کو نہلا دھلا کے لایا جا رہا ہے ۔

ملکی بحری سرحدوں سے دولت کی لانچیں بھر بھر کے کون کہاں لے جاتا تھا اور آج کہتا ہے کہ پہلے نا اہل حکومت کو نکالو پھر ہم سے بات کرو ۔  گوادر کے ماہی گیر کن بڑے بڑے ٹرالوں کے مالکان کی بات کرتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں  اور اپنی روزی روٹی پہ بیٹھے پہرے داروں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔ایک زمانہ تھا معاشی دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا تھا لیکن ایک دم کیسے اس سارے عمل کو روک دیا گیا اور سب اچھا دکھانے کی کوشش کی گئی۔

میں بھی کچھ بتانے کی کوشش تو ضرور کروں لیکن میرا قلم تو خود داغدار ہے۔
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں  غالب کی  آبرو کیا  ہے
 جتنا مایوس اس قلم نے کیا ہے اس سے زیادہ تو شاید کسی نے نہ کیا ہو۔ ٹوکروں کا شیدائی قلم کیا لکھے گا کیا اصلاح کرے گا۔ پلاٹوں میں تلنے والا قلم کیا غیر جانب داری سے تجزیہ کر کے درست حالات بتائے گا۔

پٹرول پمپس سے لے کر تحفے تحائف لینے والا  کس طرح اپنا فرض نبھائے گا۔ آپ سے استفسار تو اس لئے کروں کہ اگر مجھ میں چھید نہ ہوں۔ آپ کی گردن میں تو ملکی سلامتی و حفاظت  کےکئی طوق پڑے ہوں گے لیکن مجھے تو نشوں میں دھت گرنے کی عادت ہے۔ بلیک میلنگ سے ہرزہ سرائی تک ہر شوق پورا کرنے کے لئے مجھے موڈ بنانا پڑتا ہے ۔ اس لئے میں ان نکات کو اٹھانے پہ معافی کا خواست گار ہوں کہ شاید میں اس سوال کرنے والی جبلت پہ قابو نہ رکھ  سکا اور لکھنے بیٹھ گیا ۔ میرا رب آپ کا اقبال بلند  رکھے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :