اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی

جمعرات 1 جولائی 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

تعلیم پیسے کی محتاج اور اہل ثروت کے گھر کی لونڈی بنا دی گئی ہے ۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کسی کی انا اور خواہشات کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے ۔ یوں تو سب ادارے جہاں تک ہو سکا ترقی کے نام پہ تنزلی کا شکار ہیں لیکن جو کھلواڑ خان صاحب کے رتنوں نے اس ادارے سے کیا ہے وہ تبدیلی کے نام پہ ایک دھبہ ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ پی ایم ڈی سی ایک کرپشن کا اڈا تھا لیکن اس کرپشن سے مہا کرپشن کے پاکستان میڈیکل کمیشن ( پی ایم سی) کو کیسے جنم دیا جا سکتا ہے اس کا طرہء امتیاز یقینا خان صاحب کے اس ویژن کو ہی جاتا ہے کہ جس کو سر پہ سجائے وہ گھبرانا نہیں کے کھوکھلے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں ۔

2019ء کو میڈیکل انٹری ٹیسٹ کی فیس 500 سے بڑھا کے سولہ سو کی گئی تو امسال اسے 6000 روپے تک پہنچا دیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا کے مصداق آج  مہنگائی کا مارا گھر کے خرچے پورے کرے یا اس تعلیم کے جس کے بل بوتے پر وہ کل بچوں میں اپنا مستقبل دیکھا کرتا تھا اور آج صرف ان بچوں کا بھوکا پیٹ دیکھتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ آن لائن امتحان لینے کا خرچہ زیادہ ہے لیکن یہی امتحان یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اس سال بھی تیرہ سو روپے میں لے رہی ہے ۔

پچھلے سال پی ایم سی نے بارہ ہزار چھ سو طالب علموں کا امتحان لے کے پچھتر کروڑ کمائے تھے اور اس سال اس کا ارادہ اربوں کی دیہاڑی لگانے کا ہے ۔ ملک میں تعلیم مفت کر دینے اور سکول و کلیات و جامعات کا جال بچھانے والے ابھی تک تو غریب عوام کے لئےدام ہم رنگ زمیں بچھائے اچھے دنوں کے سپنے دکھائے یوں لوٹ مار میں مصروف ہیں کہ شاید پھر کمائی کا موقع نہ ملے ۔

دنیا کا ماشاء اللہ یہ واحد ادارہ ہے جس کو اپنے میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل طلباء کی قابلیت پہ شک اور ان کی تعلیم پہ بھروسہ نہیں ہے اور پانچ سال مکمل کرنے کے بعد این ایل ای کے امتحان کی تلوار لٹکاتے بیٹھا ہے ۔ ڈاکٹر حضرات کے لئے ایک اور حکم ہے کہ وہ اپنی  بائیومیٹرک کروائیں۔پرائیویٹ ہوں یا سرکاری سب کے لئے لازم ہے کہ وہ آئیں انگوٹھا لگائیں ۔

فیس بھریں اور رجسٹر ہو جائیں لیکن ایک اتائی کو ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے اسے بس حکم ہے کہ وہ اپنے اوپر بیٹھے افسران کو مہینہ پہنچاتا جائے اور مسیحائی  کے نام پہ تباہی مچاتا جائے۔  خدا کے فضل سے باقی صحت  کے ریگولیٹری ادارے بھی اسی کار خیر میں مصروف ہیں جہاں ڈاکٹروں کو جرمانے کئے جاتے ہیں اور وصول بھی کئے جاتے ہیں لیکن اتائیوں کے لئے امان ہی امان ہے ۔

کبھی کبھی تو میں بھی سوچتا ہوں ایک اتائی کے کام کرنا آسان اور ایک ڈاکٹر کے کچھ مشکل ہے- حکومتی پالیسیوں کے باعث اس ملک سے پوسٹ گریجوایشن کرتا ہی ڈاکٹر بیرون ملک آسامیوں کے اشتہار پڑھنا شروع کر دیتا ہے کہ جہاں ایک اچھے مستقبل کی امید بھی ہے اور فرائض کی انجام دہی پہ وہ عزت بھی نہیں ہوتی جس کا ایک ڈاکٹر ہوتے ہوئے اسے  خدشہ لاحق رہتا ہے۔


 پاکستان میڈیکل کمیشن وہ  شتر بے مہار ادارہ جس نے اپنا نائب صدر ایک وکیل چنا ہے اور  یقینا داد کا مستحق ہے کیونکہ اب امید پیدا ہو چلی ہے کہ کل وکلاء یا معاشیات کے ادارے ڈاکٹر صاحبان بھی چلا سکیں گے ۔ خدا جانتا ہے کہ ہر کام کے لئے اسی میدان کا قابل انسان چاہیئے ہوتا ہے لیکن یہاں تو جو زیادہ خوشامدی اور دلوں کے قریب ہی وہی قابل ہے ۔

ادویات کے اسکینڈل میں ملوث گردانےگئے عامر کیانی صاحب احتساب کے کٹہرے کی بجائے واپس تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پہ بھیج دیے گئے اور انہیں جواب دہی کی بجائے جواب لینے والا بنا دیا گیا ۔  بھارت سے ملٹی وٹا من ، بالوں کے شیمپو در آمد کرنے والوں کے کرتوتوں پہ بقول شخصے مٹی پاؤ  مٹی پاؤ کہتے کہتے مٹی ڈال دی گئی ۔وزیر اعظم کے صحت پہ معاون خصوصی جناب ظفر مرزا صاحب سے جولائی 2020ء میں استعفی لے لیا گیا یا انہوں نے دیا  یہ ایک الگ بات ہے مگر ان کے لگائے پی ایم سی کے درخشاں ستارے آج بھی اپنے انتخاب سے اس ادارے کو اپنی کارکردگی سے ممتاز بنا رہے ہیں ۔

پرائیویٹ کالجز کی فیس ہو یا ان کے لئے ضابطہ و قانون سب ہی فیض یاب ہوتے انہیں دعائیں دے رہے ہیں لیکن اگر کوئی نا خوش ہے تو وہ غریب ہے جس کے بچے ایکڑ دو ایکڑ بیچ کے پڑھ سکتے تھے لیکن اب یہ شمع امید بھی اس کے لئے بجھتی جا رہی ہے ۔ گھبرانا نہیں کے نعرے سنتے اب کون گھبرا رہا ہے خان صاحب اب تو اسے ان سانسوں کی بھی فکر نہیں کہ جن کے جانے سے  زندگی منہ موڑ جاتی ہے۔

آپ سے منسوب یہ بات اسے درست لگتی ہے کہ سکون موت کے بعد ہی ہے۔  لیکن کہتے ہیں کہ اب تو کفن دفن بھی یوں مہنگا ہو گیا ہے کہ مرنا بھی آسان کہاں ہے۔ سرکاری ہسپتالوں سے دوائی غائب ہے اور کوویڈ 19 کے لئے آئے وینٹی لیٹر کس نے کس کو بیچ دیے یہ بھی کسے فکر ہے ۔ وہ پیسہ کہاں گیا کون جانے۔ اگر ضرورت پڑی تو ایک غریب سے کسی نہ کسی بلواسطہ یا بلا واسطہ نکلوا لیا جائے گا اور وہ بہائے گا آپ کے لئے، اپنے بچوں کے لئے دن رات  پسینہ کیوں کہ اس کے بدن سے ایک پسینے کے علاوہ اور نکلتا بھی کیا ہے-
ابھی چند دن پہلے میرے شہر میں  ایک رجسٹری محرر کی یوں پٹائی کی گئی ہے جو رشوت کے بغیر بات بھی نہیں کرتا تھا لیکن کیا وہ رشوت لیتا اپنا کل خوشحال بنا رہا تھا یا یہ کمائی اپنے بڑوں کی نظر کرکے اپنی نوکری اور افسری کو پکا کر رہا تھا یہ کسی نے بھی نہیں سوچا۔

یوں سرکاری ملازمین پہ ہاتھ اٹھانا قطعی اچھا عمل نہیں ہے اور قابل مذمت بھی ہے لیکن تنگ آمد بجنگ آمد کی صداقت پہ ایمان لائے لوگ اپنی بے چینی یونہی نکال رہے ہیں۔ درست غلط کوئی نہیں سوچتا ۔ کل کون ان سیٹوں پہ بیٹھ کے اعتماد کے ساتھ کام کر سکے گا اس کی فکر حکومت کو بھی نہیں ہے کیونکہ ایک رجسٹری محرر کی جگہ لینے ایک اور آ گیا میدان میں۔

مگر اس نظام کو بدلنا کوئی نہیں چاہتا کیونکہ اس پہ ہاتھ ڈالنے کے لئے دل گردہ چاہیئے۔
 قلم سے  داد کے ڈونگرے برسانے کی توقع لئے اسے بھی  جگہ جگہ کوسا جا رہا ہے ۔ہم لکھنے والے تبدیلی سرکار کی کس منصوبہ بندی پہ عش عش کریں یہ ہمارے لئے بھی بہت مشکل ہے ۔ توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہمیں بھی اس رب کے حضور جانا ہے جہاں ظلم کا ساتھی بھی ظالم کے ساتھ اٹھایا جائے گا ۔ آپ کے ہر منصوبے کا جب یہی  انجام ہوتا ہے تو ہر ذی شعور یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :