چرخ کا سنگ فساں روتا ہے

پیر 10 جنوری 2022

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

آسمان کا قہر زمین اور زمین والوں کو صدیوں سے ڈراتا رہا ہے لیکن یہ واقعہ تو شاید فلک کے چھری چاقو تیز کرنے والے پتھر کو بھی رلا دے کہ جس کے ظلم کی نظیر اس کے ہاں بھی نہیں ملتی ۔ برفانی طوفان کا قہر تو بے شک اس دفعہ بھی چرخ نے توڑا تھا مگر جس طرح اس قہر میں ہم انسانوں نےزمیں پر ہی سنگ فساں پہ چھری تیز کر کے انسانیت کو کاٹا ہے اس پہ رات کا کالا ہوا سائباں بھی روتا ہے ۔

  اس کی آنکھیں بھی گزشتہ کئی دنوں سے  اشک بار ہیں کہ آفت میں مدد و مدد گار بن جانے والے اور تنگ دست کے لئے سینہ کھول دینے والے کی امت کے پیرو کاروں نے تو یہ موقع بھی ضائع نہیں جانے دیا اور مال کے حصول میں جانوں کو بھی تج دیا ۔ حاکموں سے تو کوئی گلہ نہیں ہے کیونکہ جب جب روم جلا ہے نیرو نے بانسری ہی بجائی ہے ۔

(جاری ہے)

اس بار بھی بنسی بجانے والے اگر بلدیاتی انتخابات میں اپنی کامیابی کے لئے لائحہ عمل بناتے رہےہیں  تو چنداں افسوس نہیں ہے لیکن شرم کا مقام ہے ان منافع خوروں کے لئے  کہ جنہوں نے تین ہزار والا کمرہ 40 ہزار میں بیچا۔

  ہیٹر 1000 روپیہ فی گھنٹہ دیا گیا اور ٹائر پر چین 5 ہزار روپے تک  کی ڈالی گئی کہ جو گاڑی کو برف پہ بغیر پھسلن کے رواں ،دواں رکھ سکے۔  مجبور لوگوں کو بالکل اس ہی طرح لوٹا جس طرح میدان جنگ میں مال غنیمت لوٹا جا تا ہے  اورقبر میں لاش پر مٹی ڈالی جاتی ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ  مَری میں پھنسی گاڑیوں کے اندر لوگوں پر کیا گزری ہوگی جب آسمان مُٹھی بھر بھر برف اُن کی برفانی قبروں پر ان کے جیتے جی ہی ڈال رہا تھا ایک گاڑی میں تو میاں بیوی اور چار چھوٹی چھوٹی بیٹیاں  بھی تھیں۔

برف دکھانے لے گئے تھے بچوں کو پر موت کے منہ میں لقمہء اجل بنا دیے گئے ۔ جو بچے ان کے لئےمقامی انصار کے انسانی ایثار کا یہ عالم تھا کہ انڈہ پانچ سو روپے میں بکا ۔چھوٹی گاڑی کو دھکا لگانے کا تین ہزار اور بڑی گاڑی کو پانچ ہزار میں دھکا لگایا گیا ۔ ہم ماشاءاللہ وہ قوم ہیں جو صدقے میں بھی قضا بیچتی ہے ۔ سڑکوں پہ نظم و ضبط کی بجائے اس پہ افرا تفری ہمارا طرہء امتیاز ہے ۔

ون وے کے خلاف سفر ہمیں آسان لگتا ہے ۔ پارکنگ کے معاملے میں ہماری سمجھ گاڑی کھڑی کرنے سے آگے تک کی  نہیں کہ جہاں کھڑی کر رہے ہیں وہ بوقت ضرورت کسی اور کی درد سری کا باعث تو نہ  بن جائے گی ۔لیکن یہاں تو  یہ لا پرواہی جان لیوا  ہی ثابت ہوئی۔ مری کے گرد و نواح میں کالجز ۔ سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ریسٹ ہاؤسز اور گورنر ہاؤسز ہیں لیکن پانی ڈونگہ گلی سے آج بھی آتا ہے ۔

سیاحت سے اربوں کمانے کے خواب دیکھنے، دکھانے والے اور ساری دنیا کے لئے سیر و تفریح کے راستے کھولنے والے اگر غور کریں تو ان کی گورنس کا یہ عالم ہے کہ ذرا سی چیزیں اور حالات بدلتے ہیں تو  ان کے  دعوؤں کی قلعی کھلنے میں ذرا  بھی دیر نہیں لگتی ۔ یہ آفت گزر جائے گی ۔ آنکھوں کے آنسو سوکھ جائیں گے ۔ زندگی آگے چل پڑے گی ۔ ہم سب بھول جائیں لیکن کیا ہم مری کو ضلع بنانے کی بجائے کچھ اور بھی کریں گے یہ وہ سوال ہے جو جواب مانگتا ہے ۔

بات بنیادی اسٹرکچرل ریفارمز کی ہے اور ہم نوکر شاہی میں اضافہ  ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں ۔ جس لاگت  میں ان کے لئے سرکاری دفاتر اور رہائش گاہیں بنیں گی خدارا وہ پیسہ بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے کے لئے لگایا جائے ۔ مری کی مہمان نوازی تو پچھلے کچھ سالوں سے سوشل میڈیا پہ مثالی رہی ہے ۔ کیا  ماضی کی اس آہ و فغان  پہ کسی کے کان پہ  کبھی جوں بھی  رینگی تھی ۔

کیا ان رویوں پہ پہلے بھی کبھی  سرکاری سطح پر مذمت کی گئی تھی ۔ یہ سچ ہے ہمیں ہر تھپڑ لڑائی کے بعد ہی یاد آتا ہے ۔وزیراعظم سیکرٹریٹ میں قومی آفات سے بچاؤ کا بہت بڑا دفتر ہے جہاں سینکڑوں لوگ کام کرتے ہیں۔ ان کا کام ہی طوفان، بارشوں یا مری جیسے علاقوں میں برف باری سے ہونے والے خطرات سے آگاہ رہنا اور مدد کرنا ہے۔ اس کے پاس اربوں کا بجٹ ہے مگر جب یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے تو یہ اربوں ڈکار جانے والے کہاں جاتے ہیں ۔

یہ بھی ہمیں ہی طے کرنا ہے ۔ آفات میں فوج کی مدد سب سے آخر میں آتی ہے لیکن ہمارے ہاں پہلی آپشن ہوتی ہے کیونکہ اربوں سے بنے یہ ادارے تو تنخواہ کے رولز پہ ہیں کام کے لئے ہیں ۔ اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں بہت کچھ سوچنا ہے ۔ ہمیں پیسے ہی نہیں انسانی سوچ کی ترقی اور باہمی اخوت و محبت  کی ترویج کے خطوط پہ بھی کام کرنا ہے ۔ ہم نے جو تعلیم میرٹ اور ملازمت کے حصول کے لئے مختص کر دی ہے اس سے کردار کی تعمیر پہ بھی توجہ دینی ہے ۔

ہر مسئلے میں بے حسی کی تصویر بنے حاکموں کو دیکھنے کی بجائے ہمیں اب خود آگے بڑھنا ہو گا ۔ اگر یہ کام حاکموں کے کرنے کے ہوتے تو ان کے دفاتر میں رشوت کا بازار گرم نہ ہوتا کسی مدد کے طلب گار کی بغیر مٹھی گرم کئے داد رسی بھی ہوتی ۔ علماء کرام اور قلمکاروں کو ٹوکریاں وصول کرنے کی بجائے اب معاشرتی اصلاح میں بھی قدم بڑھانا ہو گا ۔ وگرنہ ان آفات میں بھائی چارے کا نمونہ بننے کی بجائے ہم تاجر بنے ہی موت بانٹتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :