بائیڈن کی بھیانک منصوبہ بندی

پیر 23 اگست 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

 6 جولائی 2021 ء کی صبح سات بجے بگرام کی فضائی بیس کو خالی پانے والے نئے مقرر کئے گئے کمانڈر اسد اللہ کوہستانی کہتے ہیں کہ انہیں خالی بیس کا اس وقت پتا چلا جب جانے والا رات کے اندھیرے میں جا چکا تھا اور اس کی باقیات وہ کہانیاں سنا رہی تھیں کہ جانے والی کی جلدی افغانستان کے کس مستقبل کی غماز ہے ۔ وہ بتا رہی تھی کہ ماضی کی طرح ویت نام سے سائیگون جلا وطنی کی کہانی ایک دفعہ پھر اسی بھیانک مرکزی تصور کے ساتھ لکھ کے فلمائی جائے گی کہ جس نے کل بھی  انسانی تباہی و بربادی کو پردہء قرطاس کی زینت بنایا تھا ۔

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی میز پہ قطر میں بیٹھے کیوں اتنی جلدی سے بگرام سے گئے یہ ایک سوال بنا ہمیشہ امریکی سربراہان کا پیچھا کرے گا ۔

(جاری ہے)

امریکی انٹیلجنس کی ناکامی کہوں یا منصوبہ بندی کی سب کو تین ماہ کی مہلت کا عندیہ دیتے خود 31 اگست 2021 کا بھی انتظار نہ کر سکے اور ایک دم سے میدان ان کے لئے خالی کر دیا جن کے لئے کلومیٹروں کے فاصلے میٹرز اور مہینے دن اور دن گھنٹے بن جاتے ہیں ۔

وہ جو بیس سال کی جنگ کے بعد بھی نہ تھکے تھے نہ کمزور ہوئے تھے ۔ ان کے لئے بگرام سے ملنے والا اسلحہ اور جنگی سامان ان کا وہ زاد راہ تھا جس نے  ان کے سفر کو اور آسان و کامران بنا  دیا تھا ۔ دنیا کی سپر پاور اور اپنی انسانی حقوق کی علمبرداری کے نام نہاد پراپیگنڈہ کو ایک طرف رکھ کے جہازوں کے پہیوں سے روندھتا امریکہ جب گیا تو جہازوں کے لینڈنگ گئیرپہ سوار یوں زمیں پر آ گرے کہ جیسے وہ انسان ہی نہ ہوں۔

جہازوں میں سوار کتے جب انسان کی یہ حالت دیکھ رہے تھے تو ضرور سوچ رہے تھے کہ شکر ہے وہ انسانی مخلوق نہیں ہیں۔
اگرچہ امریکہ کی شکست کے آثار اسی دن نمایاں ہوگئے تھے جب 2011ء میں ملا برادر کو پاکستان کی تحویل سے آزاد کرایا گیا اور مذاکرات کا کھیل رچایا گیا- یہ ڈرامہ براک اوبامہ اور ٹرمپ سے ہوتا جب جو بائیڈن تک پہنچا تو کلائمیکس سے یکلخت یوں اختتام  پذیر ہوا کہ صرف امریکی جانوں کا تحفظ ہی کیا گیا۔

پاکستان کی تجویز کہ سیاسی مصالحت کے بغیر افغانستان سے امریکی انخلاء خونی ہو گا کی بھی پرواہ نہ کی گئی۔ پاکستان پہ الزام دھرنے والے کہ پاکستان دوغلی پالیسی کا شکار ہے خود چومکھی کا  میدان سجائے رہے۔ ایک طرف طالبان سے مذاکرات تو دوسری طرف داعش اور پاکستان مخالف تحریک طالبان پاکستان کو مضبوط کرتے رہے۔ ایک طرف را ، موساد اور این ڈی ایس کو مدد فراہم کی تو دوسری طرف آئی ایس آئی پہ نزلہ گراتے رہے۔

بھارت سے دوستی بڑھاتے وہ بھول گئے کہ کس نے ان کے لئے ستر ہزار سے زائد جانیں دی ہیں اور ایک سو ارب ڈالر کا خسارہ جھولی میں ڈالا ہے۔ امن کی بات کرنے والوں کی ناک تلے سلالہ ، آرمی پبلک سکول اور سڑکوں پہ وہ کشت و خون بکھیرا گیا کہ رب کی پناہ۔ افغانستان سے کراچی ، فاٹا، بلوچستان ، گوادر و داسو پہ وہ حملے کئے گئے کہ جو پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ تھے۔

پنج شیر وادی میں بیٹھے پاکستان دشمن اب بھی پاکستان کے خلاف وہی زبان استعمال کئے ہوئے ہیں جو کل بھی زہر آلود تھی اور آج بھی ہے۔9 ستمبر 2001ء کو جان سے جانے والے احمد شاہ مسعود کے پنج شیر سے آج کا پنج شیر بہت مختلف ہے۔ اس کی تاجکستان سے ملحقہ سرحد طالبان کے قبضے میں ہے اور تاجکستان نے اشرف غنی کے طیارے کو اپنی حدود میں نہ اترنے کی اجازت دے کے یہ واضح کر دیا ہے کہ  وہ اس لڑائی میں فریق بننے کو تیار نہیں ہے- امریکی سیکریٹری انتھونی بلینکن  کے دہلی کے دورے اور انڈیا سے بڑھائی پینگیں وہ نتائج نہیں دے سکیں کہ جن کا جو بائیڈن حکومت کو یقین تھا۔

بھارت تو یوں افغانستان سے بھاگا کہ اپنی تین ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی بھول گیا۔ اب جب کہ بھارتی و اسرائیلی گٹھ جوڑ جو پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کئے ہوئے تھا کھلنا شروع ہوا ہے تو امریکہ سارا الزام پاکستان پہ ڈال کے خود سرخرو ہونا چاہتا ہے۔ افغانستان میں خانہ جنگی دیکھنے کے وہ تمنائی کہ جنہوں نے تپتے صحرا میں طالبان ٹین کے کنٹینروں میں زندہ بھون ڈالے تھے جب عام معافی میں بخش دیے گئے تو یہ بھی اسے ناگوار گزر رہا ہے۔

چین اور روس کی افغانستان میں انفرا اسٹریکچر کی بحالی و ترقی میں پیش کی جانے والی مدد بھی خوب کھل رہی ہے۔ ساڑھے نو ارب ڈالرز کے افغانی اثاثہ جات منجمد کرکے افغانستان کو چلانے کے لئے درکار پیسہ نہ دینے والے شاید قدرت کے اس اصول کو بھول گئے ہیں کہ اگر ایک راہ بند ہو تو رب کئی اور راہیں کھول دیتا ہے۔ ایک دیا بجھتا ہے تو ہمتیں اور چراغ جلا لیتی ہیں۔

اگر طالبان کو مہیا پیسہ روک دیا گیا ہے تو اب داعش و ٹی ٹی  پی کی فنڈنگ بھی نہ ہو سکے گی اور وہ بغیر کمک کے کب تک برسرپیکار رہتے ہیں اس پہ بھی ایک سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ  پاکستان کے"ناٹ ایٹ آل" نے تو اور سینے پہ مونگ دلے کہ وہ پاکستان جو کل ایک فون کال پہ لیٹ جاتا تھا اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ چین، روس، ایران کے ساتھ نئے تعلقات نے اس کو اور توانائی بخشی ہے۔

اب پاکستان پہ پابندیوں کا عندیہ دیا جا رہا ہے لیکن شاید ان دھمکیوں سے بھی اب پاکستان کی راہیں نہ بدلیں اور کل یہ   خطہ نئی جہتیں لئے علاقے کے حالات یکسر تبدیل کر دے۔مسئلہ کشمیر اور کشمیر پہ لگائے غیر انسانی قوانین کے پیچھے بھارت کو حاصل اشیر باد بھی اب بھارتی گلے کا ہار بن رہا ہے اور مودی جی کی مقبولیت ان کی اپنی سرحدوں میں ہی یوں گھٹ رہی ہے کہ ان کے مستقبل کو بھی پریشان کر گئی ہے۔

چین کی ایران و افغانستان میں سرمایہ کاری کل کے سی پیک  منصوبے میں نئی سانسیں پھونک رہی ہے۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ ہر کوئی جو بائیڈن پہ تنقید کرتا نظر آرہا ہے – ہر کسی کی زبان پہ ہے کہ امریکی صدر اور ان کی انٹیلجنس شکست خوردہ اب اپنے پروں سے  گرد  جھاڑتی ہوئی کسی قربانی کے بکرے کی تلاش میں ہے ۔ ہر طرف سے انکار سے ان کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔

نیٹو اتحادی ترکی ، صدر طیب اردگان کی معاملہ فہمی اور اپنے ہم منصبوں سے مستقل رابطے کی صورت ان کی طالبان مخالفت کو خاموشی کی زبان دیتے کل خطے کے حالات کو موافق بنا رہی ہے۔ افغانستان کو شاہوں اور شہنشاہیتوں کا قبرستان کہنے والاجس بھیانک منصوبہ بندی سے گیا تھا شاید اس کی شکست بھی کل اس خطے میں امن کی فضا کو بحال کرنے میں مدد دے گی ۔ بے شک سب سے بڑا منصوبہ ساز وہ پروردگار ہے جو کون و مکاں کا مالک ہے اور وہی انشاء اللہ اس خطے کو سلامتی اور آشتی دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :