سوتے،جاگتے ضمیر

جمعرات 18 نومبر 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

کہتے ہیں کہ قانون کا دل اور آنکھیں نہیں ہوتیں ۔ وہ جذبات سے عاری اور اپنے بیگانے کی پہچان سے بالاتر ہوتا ہے۔ وہ فیصلہ  کرتے وقت نہ حیثیت دیکھتا ہے اور نہ ہی جاہ  وجلال وہ تو ہر کس کو اس کے تابع لاتا ہے جس قانون کا پہلا  باب مساوات کا  وہ درس ہے جو سدھار کی طرف اشرف المخلوقات کا  اولین قدم ہے۔  لیکن قیام پاکستان کے بعد ہمارے عدالتی نظام نے نئے پاکستان میں  بہت سی نئی جہتیں متعارف کروائیں ۔

  گو کہ اس نے بھی دل کی دھڑکنوں  کو گویائی دی نہ اندھی آنکھوں کو بصارت ۔  مگر ایک ضمیر ضرور دے دیا جو وقت ، بدلتے حالات اور شب و روز کے مطابق جاگتا سوتا رہتا ہے ۔ شاید سوتا زیادہ ہے اور جاگتا کم ہے اور جاگنے کے لئے بھی اسے پانی کے وہ چھینٹے چاہیئں جن کو نظریہ ضرورت کہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

جب جب کسی بڑے کی گردن پھندے میں پھنسی سانسوں میں روانی کو ذرا بھی مشکل پاتی ہے تو یہ ضمیر از خود نوٹس لیتے  ان کی زندگیوں کو نہ صرف ضمانت دیتا ہے بلکہ پچاس روپے کے حلف نامے پہ مجرموں کو جیل سے لندن پہنچانے کی ہر راہ بھی فراہم کرتا ہے ۔

تاریخ میں اس ضمیر نے کبھی  مولوی تمیز الدین کے جگانے پہ جسٹس محمد منیر صاحب کے بدن میں انگڑائی لی تو کبھی وہ برسوں سوتے رہنے کے بعد ان دنوں یکدم لندن میں ریٹائرمنٹ کے بعد جاگتے ہوئے ملکی فضا اور سیاست کو اتھل پتھل کر رہا ہے ۔ ضمیر جب جب جاگا ہے تو اس کے اس جاگنے کو پذیرائی بھی خوب ملی ہے ۔ کالے بریف کیس سے صدارتی محل ۔ ٹائم بار کیسز سے آخری سانسیں  لینے والے کی سندھ کی گورنر شپ  اور پھر اعزاز کے ساتھ تدفین، عدالت سے اٹارنی جنرل کے یہ سب  سفر اس کے وہ ثبوت ہیں جن نے یقینا" ہر کسی کو یہ بتایا ہے جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے ۔

جو جاگتا ہے وہی مراد پاتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے جب ضمیر نہیں جاگا تو ہر ملکی شریف عدالتوں پہ چڑھ دوڑا اور نظریہ ضرورت پہ پورا نہ اترنے والے کو اس کی  سزا دی اور اسے کرسی سے دوڑا کے دم لیا ۔ جب جب یہ ضمیر جاگا ہے تو چھٹی کے دن بھی ضمانتیں دیتے اس نے جان فشانی کی وہ تاریخ لکھی ہے جو شاید صفحہء ہستی پہ کہیں اور نہ ملے ۔ لیکن جب جب یہ سویا ہے تو بیگناہوں کی پھانسی کے کئی سالوں بعد جاگا ہے اور عین انصاف کا فیصلہ سناتے قبروں میں مردوں کو بھی رہائی بخشی ہے ۔

چینی کے کارخانوں کے مالکان کو اگر کبھی انصاف کی ضرورت پڑی تو یقینا" اس ضمیر نے ان کو بھی کبھی مایوس نہیں کیا ۔
یہ بھی تو جاگتی آنکھوں نے دیکھا کہ جب جب اس ضمیر کو انگوروں کے مشروب کی بوتلوں میں موج مستی کرتے فلمایا گیا اور پھر  پریس کانفرنسز میں منظر عام پہ لایا گیا تو یہ یوں جاگا کہ کبھی مدینہ منورہ تو کبھی سزا یافتہ کی چوکھٹ پہ سر پٹکتا نظر آیا ۔

انار کلی میں سموسوں پہ ملتی کم چٹنی پہ جاگتے اس ضمیر نے نجانے کیوں ماؤں کے جگر گوشوں پہ شب خون مارنے والوں کے ذمہ داران کے کیسز میں ماں کی آہیں نہ سنیں اور وہ فتح کے نشان بناتے ہسپتالوں میں قید سے شادیانے بجاتے گاڑیوں پہ اپنے چاہنے والوں کے ہجوم میں ناچتے گاتے رخصت ہوئے ۔ جب جب انگلی اس ضمیر پہ اٹھی تو اس ضمیر کو ایک مقدس گائے کی صورت اس کے ہم جولیوں نے ہر پوچھ پرتیت سے ماوراء قرار دے کے زرینہ سے سرینا کا سفر ممکن بنایا ۔


اب جب سترہ تاریخ کو دوبارہ پیشی کے موقع پر اک مدد درپیش تھی تو اس  ضمیر  کو اک بار پھر جھنجوڑا گیا  جس کے جاگ جانے پہ لندن سے نوٹڑائیزڈ بیان حلفی اسی نوٹری پبلک سے تصدیق شدہ آیا ہے کہ جس نے پہلے بھی ماضی میں اسی خاندان کے لئے  خدمات انجام دیتے ہوئے اس کام کو فرض منصبی سمجھتے انجام دیا ہے اور بہت کچھ متنازع کر دیا ہے ۔ یہ بات بھی تو ماورائے عقل و دانش ہے کہ ایک چیف اسلام آباد سے اٹھے اور فون کرنے کے لئے گلگت بلتستان اس کے پاس بیگم  اپنی لے کے جا پہنچے جس چیف کے ساتھ اس کے کچھ اختلافات بھی ہیں ۔

اور اسے وہ ثبوت فراہم کرے جو کل اس کے خلاف استعمال ہو سکتے ہوں ۔  کانوں میں کی جانے والی باتیں وہ فون پہ گواہان کی موجودگی میں بر ملآ  کرے  اور میزبان چیف اپنی بیگم کے مرنے کا انتظار کرتے تین سال خاموش رہے اورریٹائرڈ ضمیر کے جاگ جانے پر  مقامی عدالت میں جانے کی بجائے لندن پہنچ کے بیدار آنکھوں سے کس کس کو کس کس جگہ کیا فائدہ پہنچا ئے کہ سننے والا سوچتا ہی رہ جائے  کہ اس کا بیان وہ کونسی   دو رخی تلوار ہے کہ جس نے وار یہاں کیا ہے لیکن مفاد لندن میں اپنے جگانے والے کے رہائشی ویزے کی توسیع میں بھی مثبت کردار ادا کرے گا اورجب یہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو پھر گہری نیند جا سو جائے گا۔


یہ سوتے جاگتے ضمیر ہمارا المیہ ہیں ۔  یہ ضمیر ہمیشہ فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کے لئے تو جاگے ہیں لیکن جب جب ناظم جوکھیو جیسے لوگ وقت کے پہاڑوں سے ٹکرائے ہیں تو انہیں جاگ جانے کے لئے فرصت نہیں ملی ۔ روز عزتیں لٹتی ہیں روز گینگ ریپس کی خبریں ملتی ہیں لیکن  یہ ضمیر لمبی تان کے سوتا نجانے کس طوفان کا منتظر ہے ۔ حکومت پریشان ہے کہ جس  بڑے پہ بھی ہاتھ ڈالا جاتا ہے وہاں  یہ ضمیر آڑے آ جاتا ہے ۔

اس ضمیر کو دھنیا چور کو سزا دینے کے لئے کچھ نہیں چاہیئے لیکن اربوں کی لوٹ مار کرنے والے کے لئے  اسےکچھ بھی قبول ہے  چاہے وہ کیلبری فونٹ پہ ہی لکھا گیا ہو۔ ملک میں قتل کا بازار گرم کرنے والوں کے ساتھ معاہدے تو خوب نظر آتے ہیں لیکن پکڑے مجرمین کی آخری اپیل سننے کا وقت نہیں ہے کہ ان ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اے کاش کہ یہ ضمیر بھی دل اور آنکھوں کی طرح بہرہ اور اندھا ہو جائے اور انصاف کرتے وقت بس وہ فیصلہ کرے جو حق اور سچ کا ہو نہ کہ ضرورت کا- اگر یہ ضمیر یونہی جاگتا رہا تو شاید وہ تباہی ہمارا مقدر ہو گی جس کا عندیہ ہمارے رسول اکرمﷺ نے اپنے آخری خطبے میں دیا تھا اور قوموں کی بربادی  کا موجب جانتے ہوئے منع فرمایا تھا- یقینا" معاشرے کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ فیصلے ان کے میرٹ پہ ہوں وگرنہ یہ کھوتا ہوا  معاشرتی توازن ہمیں ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :