ارتقائے معکوس

بدھ 28 جولائی 2021

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

ڈارون کی تھیوری کو اگر درست مان لوں تو انسان کا ارتقا ء جانور سے ہوا ہے – آج کے حالات دیکھتا ہوں تو اسی انسان کو پھر ایک درندگی کی طرف لوٹتا  پاتا ہوں۔ انسان جو اپنی ہوش و خرد کی بدولت اشرف المخلوقات تھا اب منشیات کے استعمال میں جتا اسے کھوتا جا رہا ہے۔بچوں کے ساتھ ہوئی زیادتی دیکھوں یا اسلام آباد میں مقدم نور کا بہیمانہ قتل تو کہیں خود کو پڑھا لکھا کہلوانے والا جوان ہے تو کہیں دینی  و دنیاوی تعلیم دیتا معلم۔

ننھی پریوں کی عزتوں سے کھیلتا انسان اور انہیں قتل کرکے گندگی کے ڈھیر پہ پھینک جانے والا جب ان کا ہی قریبی رشتہ دار پاتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا یہ زمانہ انسان کو اس کے اصل کی جانب واپس پلٹتا جا رہا ہے۔ تعلیم جو انسان کو ایک جانور سےرب کا خلیفہ بناتی ہے اس کا حصول صرف ایک اچھی نوکری تک محدود  ہو کے رہ گیا ہے وہ تعلیم شعور کو کتنا اجاگر کر رہی ہے ایک سوال بن کے رہ گئی ہے۔

(جاری ہے)

کہتے ہیں کہ علم ایک دولت ہے لیکن جب اس تعلیم کی دولت سے مال و مال ہوتے درس گاہوں کے مالکان دیکھتا ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ اس کو ایک مہنگا کاروبار بنانے میں کس کس کا حصہ ہے۔ بڑھتے تعلیمی اخراجات ایک عام انسان کی پہنچ سے باہر ہیں۔ علم مومن کی میراث ہے لیکن یہ علم کہیں بکتا دیکھتا ہوں تو کہیں اسے جھکتا پاتا ہوں۔ اعلیٰ تدریسی اداروں کے وائس چانسلرز جب دولت مندو ں  کے لئے اپنی نشست خالی کر کے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھے نظر آتے ہیں تو ارتقائے معکوس کا یہ سفر مجھے تو ایک حقیقت لگتا ہے-
  خود غرضی کا یہ عالم ہے کہ وہ درندوں سے بھی بڑھ گئی ہے۔

میں نے کسی جانور ، چرند ، پرند کو  ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ اور بغیر اشتہا کے شکار  کرتے نہیں دیکھا لیکن یہاں تو مال جمع کرنے کی ہوس اپنے بیگانے کی تمیز سے انجان بنی گلے کاٹ رہی ہے۔ چوک چوراہے پہ بہتا خون پانی سے سستا ہے۔انصاف کا ترازو بھی نہ جرم دیکھتا ہے اور نہ ہی مظلوم کی فریاد دیکھتا ہے۔ اسے بھی اس حیثیت سے سروکار ہے جس سےایک ظالم آراستہ ہے۔

چھٹی کے دن کی ضمانت ہویا بیچ چوراہے کچلے گئے لوگ،بہن کے سامنے بھائی کا قتل ہو یا ماں کو اپنی بیٹیوں کی عزت کی فکر سب ظلم کا رستہ استوار کرتے نظر آتے ہیں۔ قانون کا بے رحم پنجہ سڑکوں ، شاہراہوں پہ مظلوموں کے خون سے اپنے آتشین اسلحے سے پیاس بجھاتا کس نے نہیں دیکھا۔ سب کے سامنے تڑپتے جگر گوشے جب موت کھلی آنکھوں میں بسائے گھر لوٹتے ہیں تو ایک آہ و پکار سنائی دیتی ہے لیکن پھر وقت کی گرد سب کو دھندلا دیتی ہے اور لواحقین کو مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جان کی امان پانے کے لئے صلح کر لیں یا اس کیس سے ہی منحرف ہو جائیں۔

بے گناہ اٹھارہ اٹھارہ سال جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں اور جب رہائی پاتے ہیں تو جوانی بیت گئی ہوتی ہے اور گھر میں اپنوں کے جوتوں کے علاوہ انہیں رونے کے لئے کچھ اور میسر نہیں آتا- یہ رہائی بھی غنیمت ہے کیونکہ اس آنکھ نے بیگناہ پھانسی کے پھندوں پہ جھولتے بھی دیکھے ہیں کہ جن کی رہائی کے احکامات ان کی موت کے بعد جاری ہوتے ہیں۔ یہاں تو قبر میں بھی سکون نہیں ہے دفنائی میتیں ان کی قبروں سے نکالی جاتی ہیں اور ان سے جنسی تسکین کی جاتی ہے- ہے کوئی جانور جو ایسا کر سکتا ہے لیکن یہ تو اس بنی آدم کا ہی خاصہ ہے کہ جو درندوں سے بڑھ کے درندگی دکھاتا اور معاشرے کے چہرے پہ سیاہی ملتا پھر اسی کا حصہ بن جاتا ہے۔


دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم نے بھی انسانی  اقدار کا چہرہ یوں بگاڑ دیا ہے کہ کہیں ہسپتالوں کے باہر موت کا راج ہے تو کہیں جیلوں سے بیرون ملک سفر ہیں۔ کہیں زندگی کی ضمانتیں ہیں تو کہیں موت کا سفر بھی سہل نہیں ہے۔کھلونوں کے لئے سسکیاں ہیں ۔ بچوں کے ہاتھوں کام کرنے کے اوزار ہیں اور ایک غلطی پہ وہ مار دھاڑ ہے کہ خدا کی پناہ۔ زبان کی تلخی اور کاٹ اتنی زیادہ ہے کہ زخم لگاتی ہوئی نہیں دیکھتی کہ کس کس کا جگر کاٹتی معاشرے پہ کیا کیا اثرات چھوڑتی ہے۔

حالیہ کشمیر کی انتخابی مہم اس کا ایک نمونہ ہے کہ ہم اصل دشمن کی بجائے ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے یہاں تک آ گئے ہیں کہ ہمارے جلسے جلوسوں میں اخلاقیات کی بیخ کنی شد و مد سے جاری ہے۔ ہم ایک قوم کے ایک دوسرے کے یوں دشمن ہیں کہ  ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اپنے سر پہ تاج دیکھنے کے لئے ہم کس طرح ملک دشمنی پہ اتر آئے ہیں ہمیں اس کا بھی ادراک نہیں ہے۔

غیر ملکی ہاتھوں میں کھیلتے وطن کو گالیاں دینے والے ہم اپنے مقابل بٹھائے باہمی دلچسپی کے معاملات پہ بات چیت کرتے ذرا شرمندہ نہیں ہیں بلکہ اس کی بھی توجیہات نکال رہے ہیں کہ  یہ سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ اپنی کچھار ، اپنی دھرتی ، اپنی جگہ اور گھونسلے کا تو سودا ایک جانور نہیں کرتا لیکن ہم تو اسے چند ڈالرز کے عوض بیچنے کے الزامات سینوں پہ سجائے مطمئن بیٹھے ہیں۔

ہمارے ارد گرد جلتے کشت و خون کے آلاؤ ہمارے گھر تک پہنچ چکے ہیں لیکن ہم ہیں کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔لانچوں میں ملکی دولت ڈھونے والے ہوں یا پارکوں ، قبرستانوں کی زمین کا سودا کرنے والے سب محفوظ ہیں اور اگر محفوظ نہیں ہے تو وہ ہے جس کی آہ کہتے ہیں کہ عرش کو بھی ہلا دیتی ہے۔ مگر شاید عرش والا بھی اس گراوٹ کی انتہا چاہتا ہے کہ جہاں نشیب کی منزلیں ختم ہوتی ہیں اور رحم و کرم کی بھی گنجائش نہیں رہتی۔

صفحہء ہستی سے یوں مٹنے والوں کو تاریخ بھی ہر دور میں پھرانہیں  فاسق و فاسد لکھتی ہے۔جب تک علم، انصاف اور حق و باطل کے امتیاز کا سورج طلوع نہیں ہوتا گمراہیوں کے اندھیروں میں ارتقائے معکوس کا یہ سفر نہیں رکے گا اور ہمیں اس تباہی میں دھکیل دے گا جس سے رب کریم نے بارہا انتباہ کیا ہے۔ آئیے کچھ سوچئے اور ارتقائے راست پہ اپنا قدم بڑھائیے کیونکہ وہی ہماری نجات کا ضامن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :