کرونا وائرس، احتیاطی تدابیر

جمعہ 1 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

عام فلو اور کرونا میں فرق کیسے کیا جائے ؟ یہ بھی اس وقت ایک اہم سوال ہے۔ کیونکہ دونوں وائرسز کے پھیلاوٴ کا طریقہ قریباً قریباً ایک جیسا ہے۔ دونوں چھونے سے ، ہوا میں شامل ذرات سے منتقل ہوتے ہیں۔ دونوں کی علامات معمولی فرق کے ساتھ ایک جیسی ہو سکتی ہیں۔ دونوں میں کھانسی اور بخار ہو سکتا ہے ، لیکن کرونا کی کھانسی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ مسلسل اور خشک کھانسی ہوتی ہے۔

ان مماثل علامات کے مقابلے میں دونوں میں کچھ فرق بھی موجود ہیں جیسے کہ فلو کا مرض اس وقت ہی پھیلتا ہے جب مریض اور صحتمند انسان قریب ہوں ، جبکہ کرونا کا مریض کسی چیز کو چھو کر چلا جائے تو اس کی غیر موجودگی میں اسی چیز کو چھونے والے صحتمند شخص میں بھی وائرس منتقل ہو سکتا ہے۔
 فلو کی علامات میں اکثر گلے میں درد ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس کرونا وائرس کے مریض کو سانس میں تنگی یا زیادہ سانس پھولنے کی علامت ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

 
کرونا وائرس کا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے ؟ ایک عام غلط فہمی جو لوگوں میں پھیلی ہے وہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کا بلڈ ٹیسٹ ہوتا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ کرونا وائرس کی تشخیص کسی بلڈ ٹیسٹ سے ممکن نہیں بلکہ متاثرہ شخص کے لعاب اور ناک کے مواد یا گلے کے مواد کا نمونہ لے کر اس کے ذریعے اس وائرس کی تشخیص کی جاتی ہے۔ 
 سوشل میڈیا پر آج کل گھر میں ہینڈ سینیٹائزرز بنانے کے طریقے ویڈیو کی شکل میں بتائے جا رہے ہیں اور اس میں بہت سی جامعات کے پروفیسرز کی ویڈیوز بھی شامل ہیں۔

اگرچہ یہ بہت اچھی نیت سے بتائے گئے ہیں تاکہ کسی ممکنہ مہنگائی یا نہ ملنے کی صورت میں اسے گھر میں بنایا جا سکے لیکن یاد رکھیے اس کی ضرورت ہر فرد کو قطعاً نہیں ہے۔ آپ کا گھر میں صابن سے اچھی طرح ہاتھ منہ دھو لینا بھی کافی ہے۔ مزید یہ کہ اس کی تیاری میں الکوحل استعمال کیا جاتا ہے جو بجائے خود ایک خطرناک چیز ہے اور آگ لگانے کا موجب بن سکتا ہے۔

یا اس کا زیادہ استعمال یا استعمال کے بعد ہیٹر یا چولہے کے نزدیک جانا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بالخصوص بچوں میں اس کا استعمال کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انتہائی ضرورت کے بغیر اسے گھر میں بنانے سے گریز کیا جائے۔ 
کسی گھر کا کوئی بھی فرد اگر باہر سے ہو کر آئے تو اسے چاہیے کہ واپس گھر آ کر کسی بھی گھر کے فرد کو ملنے سے قبل اور کسی بھی چیز کو چھونے سے قبل اچھی طرح ہاتھ منہ دھو لے۔

اگرسینیٹائزر میسر ہو تو اس کو ہاتھوں وغیرہ پر اچھی طرح استعمال کرے۔ بالخصوص اگر کسی ایسے فرد سے اس کا سامنا ہو جو کھانس رہا ہو یا اس کا کسی ممکنہ کرونا وائرس کے مریض سے سامنا ہوا ہو تو بہتر ہے کہ گھر آ کر متاثرہ کپڑے بھی تبدیل کر کے ان کپڑوں کو دھوپ میں پھیلا دے اور بعد ازاں اچھی طرح سے ان کپڑوں کو دھو لیا جائے۔ اوربہتر ہے کہ گھر میں موجود بزرگ افراد جو یا پہلے ہی کسی کرانک بیماری کا شکار ہوں ، ان سے ممکنہ حد تک دور رہا جائے تاکہ وائرس ان کو منتقل نہ ہونے پائے۔

 
 مزید احتیاطی تدابیر میں دن بھر مختصر وقفوں کے بعد یا ہر گھنٹے آدھے گھنٹے کے بعد پانی پیتے رہیے اور گلے کو کسی صورت خشک نہ ہونے دیجیے کیونکہ اب تک کی معلومات کے مطابق کرونا وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد کم و بیش چار دن گلے میں رہتا ہے اگرچہ اس کی سائنسی توجیہہ ابھی سامنے نہیں آئی۔ گرم پانی کی بھاپ لیجے ، چھینکتے یا کھانستے وقت منہ اور چہرے کو کہنی سے ڈھانپ لیجیے تاکہ اس کے ذرات کسی دوسرے شخص یا قریب موجود کسی چیز پر نہ پڑنے پائیں۔

اور استعمال شدہ ٹشو پیپر وغیرہ کو فوراً تلف کر دیجے۔ کوشش کیجیے کہ غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ جائیں۔ 
آن لائن کام یا تعلیم کی سہولت اگر میسر ہے تو بہتر ہے یہ کچھ دن گھر سے آن لائن کام کیجیے اور آن لائن لیکچرز کے ذریعے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیے۔ بلاضرورت اور کسی ایمرجنسی کے بغیر اور معمولی بیماریوں اور تکالیف کی صورت میں ہسپتال یا ڈاکٹر کے کلینک جانے سے گریز کیجیے کیونکہ سب سے زیادہ وائرس کا انتقال انھی جگہوں سے ممکن ہوتا ہے۔

ماسک اور دستانوں وغیرہ کا استعمال صرف اس صورت میں کیجیے اگر آپ کا ڈاکٹر آپ کو اس کا مشورہ دے۔ ورنہ یاد رکھیے کسی صحتمند شخص کو ماسک پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جب تک کہ اس کا کسی وائرس کے حامل مریض سے سامنے کا امکان نہ ہو۔ جانوروں کو چھونے اور جانوروں کی منڈیوں وغیرہ میں جانے سے اجتناب کیجیے خصوصاً اگر اس جگہ یا اس کے آس پاس کرونا کا کوئی کیس پایا گیا ہو۔

غیر ضروری سفر سے اجتناب کیجیے اور بالخصوص کرونا وائرس کے حامل ملک سے واپس آنے والے عزیز و اقارب سے ملنے میں بھی احتیاط کے پہلو کو ہرگز نظر انداز مت کیجیے۔ 
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر غیر ضروری معلومات دیکھنے پڑھنے اور اس بنا پر اپنے اندر علامات تلاش کرنے سے گریز کیجیے کیونکہ سوشل میڈیا پر عموماً غیر مصدقہ معلومات ہوتی ہیں۔

اور یہ بات طے شدہ ہے کہ سوشل میڈیا کا حد سے بڑھتا ہوا غیر متوازن استعمال بہت سے ذہنی امراض کا باعث بن رہا ہے اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں تو مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس لیے صرف اور صرف مستند معالج کے مشورے کو اہمیت دیجیے۔ کرونا وائرس کے حوالے سے خود کو باخبر رکھنے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ویب سائٹ یا کسی اور مستند ویب سایٹ سے معلومات حاصل کیجیے اور غیر ضروری ذہنی دباوٴ اور ٹینشن سے بچیئے۔

یاد رکھیے زندگی آپ کے پاس اللہ کی دی ہوئی امانت ہے اور اس کی حفاظت ہر انسان کا فرض ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور ازروئے قرآنِ مجید فرقانِ حمید ایک جان کے نقصان یا بچانے کو پوری انسانیت کے نقصان یا بچانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایسے مواقع پر احتیاط دین کے احکام میں شامل ہے کیونکہ احادیث میں مذکور ہے کہ کسی بھی وبا کی صورت میں نہ تو وبا زدہ علاقے میں کوئی جائے اور نہ کوئی وہاں سے باہر آئے تاوقتیکہ اس پر قابو پا لیا جائے۔

سو ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کرنا حکمِ خداوندی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام عالمِ انسانیت کو جلد از جلد اس وبا سے نجات عطا فرمائے اور سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔(آمین) 
( نوٹ) : مندرجہ بالا کالم لکھنے میں انٹرنیٹ پر میسر معلومات ، بی بی سی اردو ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے جاری کردہ معلومات کے 
ساتھ ساتھ راقم الحروف کو اپنے دیرینہ رفیق و محب جناب ڈاکٹر سعید اللہ شاہ ، جو شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں ماہرِ امراضِ دل ہیں ، کا عملی تعاون اور رہنمائی میسر رہی جس کے لیے میں ان کا تہہِ دل سے شکر گزار ہوں۔

اس کے علاوہ یہ تمام معلومات عنقریب ڈاکٹر سعید اللہ شاہ کی زیرِ صدارت چلنے والی فاوٴنڈیشن کنڈل فاوٴنڈیشن کی ویب سائٹ پر بھی میسر ہونگی۔ ) ا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :