کورونا وائرس کیوں خطرناک ہے ؟ (پہلی قسط)

جمعہ 22 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

کورونا وائرس دراصل بہت سے وائرسز پر مشتمل ایک پورا خاندان ہے۔اس خاندان کا ایک فرد کووڈ-19 یا نوول کورونا وائرس ہے جسے آج کل عرفِ عام میں کورونا وائرس کہا جاتا ہے۔کورونا وائرس کی طرح اسی خاندان کے دیگر وائرسز میں عام فلو کے وائرس سے لے کر MERSاور SARSجیسے وائرس شامل ہیں۔ابھی تک کی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کا پھیلاؤ اگرچہ بہت آسان، زیادہ اور تیزی سے ہو رہا ہے لیکنیہ SARSوائرس سے کم درجے خطرناک ہے۔

یہ بات اب ثابت ہوچکی ہے کہ کورونا وائرس کی ایک انسان کے ذریعے دوسرے انسان میں انتقال او رپھیلاؤ کی شرح SARSوائرس کے پھیلاؤ کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ کورونا وائرس کھانسنے اور چھینکنے کے دوران منہ اور ناک سے نکلنے والے مواد -آبی ذرات کے ذریعے متاثرہ مریض سے صحت مند شخص میں منتقل ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وائرس متاثرہ شخص کے منہ اور ناک سے خارج ہونے والے مواد میں موجود ہوتا ہے۔

اگر یہ مواد یا ذرات کسی صحت مند شخص پر براہِ راست پڑ جائیں یا کسی صحت مند شخص کے ہاتھ پر پڑ جائیں اور بعد ازاں وہ اسی ہاتھ سے اپنے چہرے کو چھو لے، تو اس میں وائرس بہت آسانی سے منتقل ہونے کا امکان موجود ہے۔اسی وجہ سے سماجی فاصلے کی بار بار ہدایت کی جاتی ہے تاکہ کوئی بھی شخص کورونا وائرس سے متاثرہ مریض سے سامنا ہونے پر اس وائرس سے براہِ راست متاثر نہ ہونے پائے۔


اگرچہ شروع میں یہ دعوی بھی کیا گیا تھا کہ یہ وائرس ہوا کے ذریعے بھی پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ، جیسے کہ chickenpoxچکن پاکس ، لیکن اس وقت تک اس بارے میں کوئی حتمی ثبوت دستیاب نہیں اور کوئی تحقیق حتمی طور پر اس کی تصدیق نہیں کرتی، اس لیے کورونا وائرس کو اس قطار میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
اگرچہ کئی ایسے مریض بھی سامنے آئے ہیں جن میں کسی بھی قسم کی وائرس کی علامات نہیں پائی گئی، اور اس وجہ سے ان سے وائرس کی منتقلی کا امکان چھینکنے اور کھانسنے کی راہ سے کافی کم ہوتا ہے، لیکن یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ان کے مقابلے میں جن لوگوں میں وائرس کی علامات موجود ہیں اور ان میں وائرس کے موجودگی کی تصدیق بھی ہو چکی ہے، وہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اسی لیے انھیں سب سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے تاوقتیکہ وہ صحتیاب ہوجائیں۔اس وقت تک کورونا وائرس سے بچاؤ کا سب سے اہم ترین ذریعہ مناسب وقفوں سے اچھی طرح صابن سے ہاتھ دھونا،اور ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھونے سے گریز کرنا ہے۔ یہ کہنے میں آسان لگتا ہے لیکن دراصل انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اکثر اوقات غیر ارادی طور پر اپنے چہرے کو چھوتے رہتے ہیں۔

لیکن کورونا وائرس سمیت ہر قسم کی انفیکشن اور وائرسز سے بچنے کے لیے یہ طریقہ انتہائی کارآمد ہے۔
جیسا کہ ہم گزشتہ کالموں میں اس حوالے سےذکر کر چکے ہیں کہ کورونا وائرس صرف متاثرہ شخص کے چھینکنے یا کھانسنے سے ہی نہیں پھیلتا بلکہ یہ وائرس سے متاثرہ یا چیز کو چھونے سے بھی دوسروں میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی اس کا سب سے خطرناک طریقہِ واردات،اس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ اور سب سے زیادہ نظر انداز ہونے والاپہلو ہے۔

اس کو ایسے سمجھیے کہ جب ہم میں سے کوئی بھی شخص کھانستا ہے یا چھینکتا ہے تو اس کے ذرات آس پاس موجود کسی نہ کسی چیز، میز، کرسی، بستر، غرضیکہ کسی بھی چیز کی سطح پر پڑتے ہیں۔اب اگر چھینکنے یا کھانسنے والا شخص کورونا وائرس کا مریض ہے تو اس کے منہ اور ناک سے نکلنے والے ذرات کے ساتھ وائرس بھی اس چیز کی سطح پر پہنچ جاتے ہیں اور وہاں کئی دن تک زند ہ رہتے ہیں۔

اسی سطح کو جب کوئی بھی دوسرا صحتمند انسان بے خبری میں چھو لے تو وائرس اس شخص کے ہاتھوں پر منتقل ہو جاتا ہے اور اگر وہ اچھی طرح ہاتھ دھوئے بغیر اپنی آنکھوں یا ناک کو ہاتھ لگائے تو وائرس اس کے جسم میں داخل ہو کر اس انسان کو بھی اپنا شکار بنا لیتا ہے۔
ہم یہ بات بھی پہلے لکھ چکے ہیں کہ کورونا وائرس کپڑوں، جوتوں، ہاتھ میں پکڑی کسی بھی شے، سائیکل ، موٹرسائیکل یا کار، غرضیکہ کسی بھی چیز پرموجودگی کی صورت میں آپ کے گھر داخل ہو سکتا ہے اور آپ کی ساری کی ساری احتیاط دھری کی دھری رہ سکتی ہے۔

عام طور پرلوگ ہاتھوں پر سینیٹائزر لگا کر اور ماسک پہن کر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو وائرس سے محفوظ کر لیا ہے۔ یہ دراصل خودکو دھوکے میں رکھنے والی بات ہے اورانھیں اس سے باہر آنا ہوگا،کیونکہ اگر کسی کے آس پاس کورونا وائرس کاکوئی ایسا مریض موجود ہے جس میں کسی قسم کی علامات نہیں پائی جاتیں تو اس سے وائرس کا پھیلاؤ کھانسنے یا چھینکنے سے نہیں ہوگا،بلکہ جب وہ مریض اپنے قریب موجود کسی بھی چیز کی سطح کو چھوئے گا تو وائرس اس میں منتقل کر دے گا اوراب تک کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوول کورونا وائرس مختلف اشیا پر کئی دن تک زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس لیے صرف اسی وقت ہی نہیں بلکہ کئی دن بعد بھی کسی بھی صحتمند شخص کے اسی سطح کو چھونے سے وائرس اس میں منتقل ہونے کا خدشہ برقرار رہتا ہے تاآنکہ اس جگہ کو اچھی طرح صاف کر لیا جائے۔

مزید یہ کہ ایسا نہیں ہوتا کہ ہم نے ماسک پہن لیا اور دوبارہ اسے نہیں چھوا بلکہ اسے چہرے پر درست کرنے کے لیے ہم میں سے تقریباً ہردوسرا شخص بار بار چہرے کو ہاتھ لگاتا ہے، شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جو ایسا نہ کرتا ہو۔ اور اگر وائرس ہاتھوں پر موجود دستانوں پرموجودہو تو ؟ اس سے آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ہم میں سے جو لوگ ماسک لگا اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں وہ دراصل کتنی بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں اور اپنے ہی ہاتھوں کے ذریعے ماسک پہننے کے باوجود بے خبری میں کتنی آسانی سے کورونا وائرس کا شکار بن سکتے ہیں۔اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ماسک کے باوجود چہرے کو چھونے سے اجتناب کیا جائے۔ (جاری ہے )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :