والدین کی عظمت

منگل 22 جون 2021

Esha Saima

عیشا صائمہ

آج جس حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہ رہی ہوں. وہ مختلف دنوں کو منانے کے رواج سے ہے. باقی فضولیات کے ساتھ ساتھ والدین کے دن منانے کا رواج بھی عام ہوتا جا رہا ہے.
جب کہ  دیکھا جائے تو والدین کا دن منانے کی کوئی تک نہیں بنتی. کیونکہ والدین ہم سب کے لئے وہ ہستی ہیں.
جنہوں نے اپنا ہر پل، ہر خوشی، اپنا خون پسینہ سب ہم پر نچھاور کر دیا.


تو ان کے لئے ایک دن منانے کا رواج بالکل غلط ہے.
اس لئے کہ میرے نزدیک ہر دن والدین کا دن ہے. کیونکہ ان کی محبت و شفقت، ان کی دعاؤں کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں. اور نہ ہی ہم ان کے بنا کامیاب ہو سکتے ہیں.
اس لئے ہر دن کو اپنے والدین کے نام کرنا چاہیے. کہ ان سے محبت کے لئے کچھ پل نہیں.

(جاری ہے)

ہر پل ہی ان کے لئے مختص ہونا چاہئے. اور اس کے لئے ان سے محبت اور ان کا ادب بہت ضروری ہے.

بلکہ محبت کا تقاضا ہی یہی ہے. کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے. اور ان کا ادب کیا جائے.
کیونکہ ادب اور اخلاق معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں. جو باوقار معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. بے ادب انسان  معاشرے میں اپنا مقام نہیں بنا سکتا. اسی لئے کہا گیا ہے کہ  ’’باادب بانصیب اور بے ادب بدنصیب‘‘ یعنی ادب ایک ایسی خوبی ہے. جو انسان کو دوسروں سے  ممتاز بناتی ہے.

ادب و آداب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرۂ امتیاز ہیں.اور  اسلام نے بھی ادب و آداب اور حسن اخلاق پر زور دیا ہے. اور جس کے اخلاق اچھے ہیں. اسے سب سے بہترین کہا گیا ہے.
ہمارے مذہب اسلام نے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد پر بہت زور دیا ہے. اور ہر رشتے کے حقوق وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیئے ہیں. ادب و آداب اور حسن اخلاق کی تعلیم بھی دی گئی ہے، جس میں سرفہرست والدین کے حقوق اور ان کا ادب ہے.

اس کے علاوہ اساتذہ کا احترام، پڑوسیوں کے حقوق معاشرے کے ستائے ہوئے افراد، مساکین، یتیم، سب کے حقوق شامل ہیں. یہ تمام افراد بھرپور توجہ اور احترام کے مستحق ہیں. اور انکی خدمت اور مدد کو بہت اہمیت حاصل ہے.
کیونکہ خدمت خلق اور ان لوگوں کی مدد سے ہی  انسان کی عظمت کا صحیح طورپر پتا چلتا ہے. اللہ تعالیٰ نے انسان کے ذمے دو فرائض لگائے ہیں.

ایک اپنے رب  کی اطاعت، اور دوسرا اس کے بندوں سے محبت اور ان کی خدمت. اور سب سے زیادہ محبت اور پیار کی مستحق ماں ہے.
اس حوالے سے پہلے ماں کی عظمت کے بارے میں بات کرتے ہیں.
ماں اس ہستی کا نام ہے. جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے. اور جب تک یہ دنیا قائم ہے ہر ماں  ایسے ہی اپنے بچوں کو کو دکھوں، اور مصیبتوں سے بچانے کے لئے انہیں اپنے آنچل  میں چھپائے رکھے گی.

اور ان کی آسانیوں اور کامیابیوں کے لئے دعا گو رہے گی.
دیکھا جائے تو دنیا میں ہر انسان چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے  تعلق رکھتا ہو. والدین اور خصوصاً ماں ہر ایک  کے لئے قابل احترام ہے.
اور اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیا کا سب سے خوبصورت اور انمول  تحفہ ہے. ماں ہر گھر کے  باغ  کا ایک ایسا پھول ہے.

جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو  اپنی خوشبو سے مہکاتی رہے گی.کیونکہ ماں ہی آپ کے دکھوں کامداوا ہے. جس گھر میں ماں موجود ہے. وہ اپنی محبت اور شفقت، سب اپنی اولاد پر وار دیتی ہے.
خود غم اٹھا کر اولاد کے سکھ کے لئے ہر پل دعائیں کرتی نظر آتی ہے.
چونکہ ماں  اپنی اولاد کے لیے اپنا سکھ، خوشی آرام سب قربان کر دیتی ہے. اس لئے جس قدر ممکن ہو.

"ماں سے محبت کا اظہار کیا جائے. ان کا احترام کیا جائے.  کیونکہ ماں سب سے زیادہ حسن سلوک کی حق دار ہے.
اس بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا. اور کہا:  "
" اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں.

اس نے کہا: ان کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں. اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  تمہاری ماں.اس نے کہا: ان کے بعد؟  تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہارا والد) اس حدیث کو بخاری:  اور مسلم:  نے روایت کیا ہے.
نیز ماں نے ہی تمہیں اپنے پیٹ میں حفاظت کے ساتھ اٹھائے رکھا،  اپنے سینے سے تمہیں دودھ پلایا، اس لیے ماں کی محبت لازمی  چیز ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں،  بچوں کی ماں سے اور ماؤں کی بچوں سے محبت  تو جانوروں اور چوپاؤں میں بھی اللہ تعالی نے فطری طور پر رکھی ہے، اس لیے انسان میں ان سے بھی زیادہ ہونی چاہیے.

بچوں کو چاہیے کہ ہر پل اپنی محبت کا اظہار مختلف طریقوں سے کریں. اور والدین خصوصاً ماں کو احساس دلائیں. کہ وہ آپ کے لئے کتنی اہم ہیں. آپ ان کے، ان کی محبت کے بنا کچھ نہیں.
اگر ماں کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو ان  کا مکمل خیال رکھا جائے،  کیونکہ بچپن میں ماں نے ہی اس کی ہر چیز کا خیال رکھا تھا، ماں نے ہی بچوں کی وجہ سے تکالیف اٹھائیں. اور ساری ساری رات جاگ کر ان کے سکھ اور آرام کے لیے اپنے سکھ اور آرام کو قربان کر دیا.


اللہ تعالی کا فرمان ہے. :
" اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے لیے حسن سلوک کی خصوصی نصیحت کی ؛ کہ ماں نے اسے  دوران حمل تکلیف جھیل کر اٹھائے رکھا اور زچگی کے دوران بھی تکلیف اٹھائی. (الأحقاف: 15)
اس لئے کہا گیا کہ  جہاد والدین کی خدمت میں رکاوٹ بنے. تو جہاد کی بجائے والدین کی خدمت کو بسا اوقات مقدم رکھنے کا کہا گیا ہے.
جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور جہاد کے لیے اجازت مانگی تو "آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے استفسار فرمایا: (کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟) تو اس نے کہا: جی ہاں، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان دونوں  کی خدمت میں جد و جہد کر) اس حدیث کو بخاری:  اور مسلم: روایت کیا ہے.


والدین کے ساتھ حسن سلوک کے  بارے میں قرآن پاک میں بھی تاکید کی گئ ہے.
فرمایا گیا:
"اور والدین کے ساتھ بہتر سلوک کرو. اور ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں. توانہیں اف تک نہ کہو. نہ ہی انہیں جھڑکو. اور ان سے بات کرو تو ادب سے کرو."
تو اللہ کے اس فرمان کو دیکھا جائے تو والدین کو "اُف" کہنا بھی حرام ہے.
اس لئے ہر پل ہر لمحہ ان سے محبت کا اظہار کیا جائے.

اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے. کیونکہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ محبت کی حقدار ہیں.
یہ کامیابیاں، یہ عزت، یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو دیا ہے مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہے کھلے میرے لہو میں گلاب
میرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
کہاں بصارتِ جہاں اور میں کم سِن و ناداں
یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے
جہاں جہاں ہے میری دُشمنی، سبب میں ہوں
جہاں جہاں ہے میرا احترام، تم سے ہے
ماں کی دعاؤں کی وجہ سے ہم بہت سی مصیبتوں سے اور بلاؤں سے محفوظ رہتے ہیں.


پیش آسکے گا کیسے کوئی حادثہ مجھے
ماں نے کیا ہوا ہے سپرد خدا مجھے
اسلام میں ماں باپ دونوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئ ہے.
کیونکہ ماں کی طرح باپ بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے. اورباپ سچے جذبے اور صادق رشتے کا نام ہے،جس کا کوئی نعم البدل نہیں. باپ کی عظمت سے کوئی بھی انسان،  انکار نہیں کر سکتا.

باپ کا رشتہ ماں کی طرح مخلص ہوتا ہے. جو صرف آپ کو دینا جانتا ہے.
باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا.
باپ جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے. اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے.
ایک موقعہ پر ایک صحابی رسول آکر آپ ﷺ کی خدمت میں شکایت کرنے لگے. کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں. ایسے موقع پر میں کیا کروں آپﷺ نے جواب دیا.تواو رتیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے "
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پہ رکھتا ہے
یہی ہے وجہ مجھے چومتے جھجھکتا ہے
وہ آشنا مرے ہر کرب سے رہے ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پاتا مگر سسکتا ہے
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں فقط مری ہاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے
وہ لوٹتا ہے کہیں رات دیر کو دن بھر
وجود اس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا ہے
گلے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک داماں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
مگر کھلونے مرے سب خرید لاتا ہے
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے جی بھر کے
نہ جانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا ہے
مرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویراں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
باپ آپ کو محبت و شفقت سے پالتا ہے.

اور ہر طرح سے ان کی کوشش ہوتی ہے.  کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ میعار زندگی فراہم کریں . تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکیں . اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں .
لیکن اولاد جوان ہونے کے بعد باپ کی محنت و مشقت اور مہربانیاں بھول جاتی ہے. جوان بیٹے اپنی کمائی پر اپنا حق یوں جتاتے ہیں ، جیسے ان کے والد نے ان کے لئے کچھ کیا ہی  نہیں.

وہ یہ بھول جاتے ہیں. کہ جس مقام پر آج وہ ہیں. وہ سب والدین کی محنت، اور ان کی دعاؤں کا ثمر ہے.
اس لئے والدین کی عظمت کو سمجھتے ہوئے ان سے محبت کا برتاؤکریں. انہیں ہر روز اپنی محبت کا، احساس دلائیں. ان کی زندگی میں ان کی قدر کریں. اور جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں. تو ان کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں. تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :