”بہترین حکمت عملی کی ضرورت “

پیر 27 اپریل 2020

Faisal Mirza

فیصل مرزا

رمضان کے بابرکت مہینہ کا آغاز ہو چکا ہے اس مہینہ میں تراویح اور نمازوں کی مساجد میں ادائیگی تقریبا تمام مسلمان ہی یقینی بناتے ہیں، دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے برے حالات ہیں خصوصی طور پر امریکہ، اٹلی، سپین اور فرانس وغیرہ میں تو تباہی کے حالات ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپین ممالک میں تجارتی اور سرکاری ادارے تو لاک ڈاؤن ہیں لیکن مغربی ممالک کی عوام صحت مند زندگی کے حصول کے لئے واک اور صحت افزاء مقامات کی طرف رخ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے سماجی روابط قائم ہو رہے ہیں اور کورونا کا پھیلاؤان ممالک میں گھمبیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔


پاکستان میں الحمداللہ اس طرح سے پھیلاؤاور اموات نہیں ہو رہیں۔ بہرحال روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے مثبت کیسز میں تین سو سے زیادہ کا اضافہ ہو رہا ہے جو کہ پریشانی کا باعث ہے، لاک ڈاؤن کے باوجود یہ حالات ہیں تو اگر تمام انڈسٹریز ، مساجد اور دیگر کاروباری ادارے اس پر قابو پانے سے پہلے کھولے جاتے ہیں تو حالات مزید سنگین ہو جائیں گے۔

(جاری ہے)

ان پر قابو پانے کا حل اس وقت احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلے کے قیام پر بابندی ہے۔
رمضان میں مسجدوں سے دور رہنا ہمارے لئے فکرمندی کا باعث ہے لیکن ایک چیز غور طلب ہے کہ مساجد میں عام دنوں میں تو صرف چند نمازی ہی مساجد میں نظر آتے ہیں لیکن رمضان کی برکتیں اور نیکیاں سمیٹنے کیلئے مساجد بھری ہوتی ہیں، جیسا کہ حالات ہر خاص عام کے سامنے ہیں کہ اگر مساجد میں رمضان کے دوران روایتی طرز پر لوگوں کا ہجوم ہو گا تو ملک بھر میں حالات خطرناک ہو جائیں گے ،گو کہ ہم بحیثیت مسلمان موت کو برحق سمجھتے ہیں لیکن یہ مسئلہ انفرادی سطح پر نقصان کا نہیں ہے اس سے پورا ملک متاثر ہو گا اور اگر امریکہ اور دیگر یورپی ممالک جیسے حالات ہو گئے تو ہمیں اس نقصان سے نکلنے کیلئے دہائیوں پر محیط عرصہ کا وقت درکار ہوگا۔


اس نقصان سے بچاؤ کیلئے حکومت کو فوری طور پر مستحکم پالیسی بنانا ہو گی، ان حالات میں میرے خیال میں مساجد میں نمازوں اور تراویح کیلئے صرف چند افراد کو ہی اجازت دی جائے جو درمیانی فاصلہ قائم رکھتے ہوئے عبادت سرانجام دیں اور دیگر افراد کی اس میں شمولیت کیلئے گھروں میں محدود رکھ کر لاؤڈ سپیکر کے مدد لی جائے۔ امام مسجد تمام نمازوں اور تراویح کو لاؤڈ سپیکر سامنے رکھتے ہوئے ادا کریں تا کہ گھروں میں موجود افراد باجماعت نمازوں اور تراویح کی ادائیگی کا حصہ بن سکیں۔


مساجد کی وسعت اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایت کردہ درمیانی فاصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی حساب سے نمازیوں کے داخلے کی اجازت دی جائے اور اس عمل کو متعلقہ تھانوں کی نگرانی میں سرانجام دیا جائے ، مساجد کی کمیٹیا ں تو ہر گاؤں اور شہر کی سطح پر موجود ہیں یہ کمیٹیاں بھی اس امر کو یقینی بنائیں ، اسی طرح عید کے اجتماعات کیلئے بھی حکمت عملی بنائی جائے، تا کہ عوام کی بڑی تعداد کو کورونا سے متاثر ہونے سے بچایا جا سکے، پالیسی بنانے سے پہلے علماء اور مفتی حضرات کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے، کیونکہ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے اور دین اسلام لوگوں کی جان کو داؤ پر لگانے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔


رمضان میں حصول ثواب کیلئے اکثر مساجد میں اور دیگر مقامات پر افطاری اور افطار پارٹیوں کا بندوبست کیا جاتا ہے ان اجتماعات پر بھی بابندی عائد کر نا ہو گی اور جو لوگ افطاری کروانا چاہتے ہیں ان کو بابند کرنا ہو گا کہ گلی محلہ کے ضرورت مند لوگوں کے گھروں میں افطاری پہنچائیں تا کہ ایک فرد کے اجتماعات میں افطاری میں شمولیت کی بجائے ضرورت مندوں کا پورا گھرانہ افطاری کر سکے۔

مقصد تو افطاری کروانے والے کا ثواب کا حصول اور ضرورت مندوں کی مدد ہے تو یہ اس طریقہ سے بہتر انداز میں سرانجام دیا جا سکے گا۔
وزیر اعظم پاکستان نے ماہرین کی مشاورت سے اور ملکی معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مکمل لاک ڈاؤن کی بجائے ملک بھر میں جزوی لاک ڈاؤن جبکہ چندکاروباری شعبوں کو کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے ، اور ملک کے دیگرکاروباری شعبوں سے وابستہ یونین رہنما بھی سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں ہیں کہ ان سے وابستہ شعبوں کو بھی اجازت دی جائے تا کہ وہ بھی کاروباری مراکز کھول کر سکیں لیکن حکومت نے اگر دباؤ میں آتے ہوئے اس کی اجازت دے دی تو حالات مزید خراب ہونگے۔

عید کے دنوں میں خریداری کیلئے آن لائن خریداری کو فروغ دینا ہوگا اور بازاروں میں ہجوم کو روکنا ناگزیر ہے۔
دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے کہ جو کاروباری شعبے کھولے گئے ہیں وہاں پر بھی حکومت کی طرف سے وضع کی گئی احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ باشعورلوگ بھی احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ کر گھروں سے باہر روزمرہ کی خریداری کیلئے ایک جگہ پر حکومت کے بتائے گئے فاصلے کو برقرار رکھے بغیر اکٹھے ہوتے ہیں جو کہ تشویش ناک ہے۔

اشیائے ضروریہ کی خریداری کے مقامات پر حکومت کو چاہیے کہ متعلقہ تھانوں اور لوکل گورنمنٹ کے ذریعے احتیاطی تدابیر کو یقینی بنائیں۔
وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے لاک ڈاؤن میں نرمی کے حکومتی پیغامات میڈیا پر سننے میں آرہے ہیں عوام میں تناؤ کم ہو رہا ہے اور عوام سمجھ رہی ہے کہ حالات کنٹرول میں ہیں لیکن ایسا ابھی سوچنا حماقت ہو گا کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر تین سو سے اوپر افراد کورونا کا شکار ہو رہے ہیں کنٹرول کے احاطہ میں تب اس کوشمار کیا جا سکتا ہے جب روزانہ کی بنیاد پر یہ تعداد مسلسل کم ہوتی جائے۔


حکومتی سطح اس لاک ڈاؤن کے حالات میں مناسب حکمت عملی اختیار نہیں کی جارہی احساس پروگرام کے سوا سب کچھ صرف اعلانات کی حد تک نظر آ رہا ہے، حکومت کی طرف سے یونیورسٹیوں وغیرہ کو آن لائن کلاسز کے احکامات کے باوجود ابھی تک اکثر سرکاری یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کی طرف سے آن لائن کلاسز کا اہتمام نہیں کیا جاسکا، کلاسز کی شروعات تو دور کی بات ابھی تک ان یونیورسٹیوں نے یہ تک حکمت عملی تک نہیں بنائی کہ آن لائن کلاسز کس طریقہ سے عمل میں لائی جائیں۔


اس حوالہ سے گورنمنٹ کوشروعات میں ہی فوری ایکشن لینا چاہیے تھا گورنمنٹ کے آئی ٹی کے اداروں کے ملازمین گھروں میں فارغ بیٹھے ہیں ان کے گھروں پر موجود رہ کر ویب ایپس اور ویب چینل بنانے کے احکامات صادر کرنا چائییں تھے اور اب تک پروفیسر حضرات کو گھر پر بیٹھ کر ہی ان کے متعلقہ مضمونوں کے لیکچر تیار کر کے ان ایپس یا چینل پر لوڈ کر دینا چاہیے تھے لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔

یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے کہ یوٹیوب پر طالبعلموں کے متعلقہ لیکچر اپ لوڈ فوری کئے جائیں یا سکائپ پر لیکچرز کا اہتمام کیا جائے تاکہ مزید وقت کا ضیاغ نہ ہو۔
 اس کے علاوہ حکومت دیگر سرکاری اداروں کو احکامات دے کہ لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن ورکنگ فوری شروع کی جائے ، تمام ادارے نادرا کی طرز پر اپنے آن لائن پورٹل یا ویب سائٹس حکومتی آئی ٹی اداروں کے ذریعے بنوائیں اور آن لائن درخواستیں حاصل کر کے عوام کی ضروریات کو پورا کریں۔


دیہی علاقوں کی اکثر آبادی شناختی کارڈ کا آج تک اجراء نہ کروانے کی وجہ سے احساس پروگرام سے فائدہ حاصل کرنے سے محروم ہے جبکہ نادرا کے دفاتر بند ہیں اور آن لائن فریش درخواستوں کی سہولت نادرا کی ویب پر نہیں دی گئی جس وجہ سے ضرورت مند اور غریب طبقہ کی کافی تعداد محرم رہی ہے۔
حکومت کو احساس پروگرام کی رجسٹریشن کیلئے توسیع دینی چائیے اور نادرا حکام کو احکامات دے کہ پاکستانیوں کی فریش کارڈ کے حصول کے لیئے درخواستوں کی آن لائن وصولی کو فورک یقینی بنائیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ ضرورت مند لوگ احساس پروگرام سے فائدہ حاصل کر سکیں۔

اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ لاک ڈاؤن میں مزید نرمی نہ کرے اور مئی کے آخر تک ایک سو سے کم کیس پر آنے کے بعد ہی مزید نرمی کی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :