بس افکار کے فاصلے مٹا دیجیے

جمعرات 5 نومبر 2020

Faraz Ahmad Wattoo

فراز احمد وٹو

’’مسلمانوں نے پوری دنیا میں اپنا مذاق خود ہی بنوا لیا ہے۔ ان کی جہالت ہی انھیں لے ڈوبے گی۔ یہ روزانہ طاقتوروں سے رسوا ہوں گے۔ ان کے خدا اور پیغمبر کا گلی کوچوں میں مذاق اڑایا جائے گا۔ انہیں ان کی غربت کے طعنے ملیں گے۔ لیکن یہ سبق نہیں سیکھیں گے۔ یہ پچھلے 100 سال سے شدید ذلیل ہو رہے ہیں، یہ آج تک اس رسوائی سے نہ تنگ آئے ہیں اور نہ ہی ان کا ایسا کوئی نیک ارادہ ہے۔

لہٰذا اب دل یہی کرتا ہے کہ نہ سنا جائے، نہ سوچا جائے اور نہ کہا جائے۔ ہو سکتا ہے 100 سال اور ذلت میں گزار کر ہمیں کوئی عقل آ جائے۔‘‘ وہ میرے ایک جاننے والے تھے۔ فرانس میں ایک اسلامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ وابستہ تھے۔ فرانس میں پچھلے چند ہفتوں میں رونما ہونے والے واقعات نے انھیں کافی غمگین کر ڈالا تھے۔

(جاری ہے)

کل جب اس طالبِ علم نے ان سے اس ساری پیش رفت کی بابت بات کی تو وہ پھٹ پڑے تھے۔


تو آپ کے خیال میں صحیح اقدام کیا ہے؟ ہم جواب میں جذبات کا اظہار نہ کریں تو کیسے یہ پیغام جائے گا کہ ہم اپنے پیغمبرﷺ کی گستاخی پر بہت شرمندہ ہیں؟ میں نے گفتگو کا سلسلہ ایک اور سوال کے ساتھ آگے بڑھا دیا۔ وہ بولے، ’’ دیکھو ہر سوسائٹی کچھ اقدار کے ساتھ کھڑی ہوتی جن کی وہ پرستش کرتی ہے۔ یہ ہر جگہ ہیں۔ مثلاً آپ پاکستان میں یہ نعرہ نہیں لگا سکتے کہ ایک ہی جنس کے لوگوں کو شادی کا حق حاصل ہونا چاہیئے۔

آپ کسی مذہبی ملک میں اس نعرے کا خیال بھی اپنے ذہن میں نہیں لا سکتے۔ یہ اصولاً غلط ہے اور بہت سے آزاد معاشروں نے بھی اس کیلئے قانون سازی نہیں ہونے دی۔ جس طرح حیا ہمارے معاشروں میں ایک قدر ہے، اسی طرح آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق مغرب میں ایک قدر ہیں۔ وہ جمہریت، آزادی اور مساوات کے علمبردار ہیں۔
ان کی ایک پوری تاریخ ہے کہ کیسے وہ ایک تنگ نظر مذہبی معاشرے سے اس ڈگر پر آئے اور پھر انہوں نے ہمارے ممالک تک کو یونیورسٹیاں اور ادارے بنانے کر دینے شروع کر دیے۔

سو آپ دیکھیں آپ ڈیل کن لوگوں سے کر رہے ہیں۔ آپ خود ایک صحافی ہیں، آپ کو پتہ ہے کہ آپ کو ہر حال میں سچ بولنا ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولنا، لیکن وہ سچ کڑوی گولی کی بجائے خوبصورت استدلال کی صورت میں کیسے ایک معاشرے کو پیش کرنا ہے، یہی ہم سب مسلمانوں کو سیکھنا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ہمارے علماء ایٹم بم فرانس پر چھوڑنے کی باتیں کر رہیں اور عوام اس جاہل اور زمینی حقائق سے نا بلد ٹولے کے پیچھے کھڑے ہو کر نعرے بلند کر رہے ہیں۔

آپ جواباً خود بھی فرانسیسیوں کے خاکے ہی سوشل میڈیا پر چھوڑ رہے ہیں حالانکہ وہ اس سطح پر کھڑے ہیں کہ انہیں حضرت عیسٰیؑ کا خاکہ بنانے پر بھی کوئی دکھ نہیں۔ فرانسیسی عیسائی ہیں لیکن دیکھ لو ان کے پیغمبر کے خاکے کا دکھ بھی ہمیں ہی ہے۔ مطلب ہم اخلاقی طور پر پیغمبروں کی مؤدب قوم ہیں لیکن ہماری باتیں اور لہجہ ایسا ہے کہ مغرب کو ہم دعوت دے دیں پھر بھی وہ  ہم سے مکالمہ کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔

‘‘
لیکن کیا ان کی مصنوعات اور کمپنیوں کا سارے مسلمان بائیکاٹ کر دیں تو اس اقتصادی دھچکے کے نتیجے میں وہ اس حوالے سے کوئی قانون سازی کرنے ہر مجبور نہ ہو جائیں گے؟ اگلا سوال وہی تھا جس اقدام کی پاکستان میں دھوم تھی اور اس کے نتیجے میں ایک ہماری اپنی کمپنی کو یہ تفصیلی بیان دینا پڑا تھا کہ وہ پاکستانی کمپنی ہے۔ وہ بولے، ’’اول تو یہ ہو گا نہیں۔

امت نامی کوئی گروپ اب کہیں متحد نظر آتا ہی نہیں۔ آپ کے فواد چودھری خود ایک دن پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے کہ امت کدھر ہے اب؟ سو اول تو یہ مہم ناکام ہو جائے گی۔
دوم اگر آپ یہ کر بھی ڈالتے ہیں تو اس سے کیا ہو گا؟ کیونکہ اس وقت فرانس کسی ملک یا گروہ کے خلاف نہیں کھڑا۔ یہ اپنے خیال میں ان انتہا پسندوں کے خلاف ہے جو فرانسیسی اقدار پر تنقید کر رہے ہیں۔

ان کی زد میں مسلمان ہیں کیونکہ یہ قتل کر رہے ہیں ان کے لوگوں کو، اپنی بیٹیوں کے سر مونڈھ رہے ہیں اور لوگوں کو تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ ان کے خلاف ہے اور یہ مسلمانوں کے ’’ایٹم بم چھوڑ دو فرانس پر‘‘ والے بیان پر مزید مشتعل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا آپ اگر ان کو معاشی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو یہ سہہ جائیں گے۔ بعد میں وہ ہو سکتا مزید ایک قدم آگے بڑھ کر آپ کے لوگوں کو ملک بدر کرنا شروع کر دے۔

ہو سکتا ہے پھر مغرب ہی آپ کا بائیکاٹ کر دے جس کے بعد پوری دنیا ایک عالمی جنگ کی طرف بڑھنے لگے گی۔ سو ایسے ہر قدم سے جو تہذیبوں اور لوگوں کے بیچ تفریق کا باعث بنے، پرہیز کیا جانا چاہیئے۔ پوری دنیا کے دانشوروں کو انسانوں کو یہی پیغام دینا چاہیئے۔‘‘
لیکن ہم کریں کیا؟ ہم تنقید کریں تو انتہا پسندی بڑھتی ہے، ہم بائیکاٹ کریں تو انتہا پسندی بڑھتی ہے، ہم دھمکی دیں تو انتہا پسندی بڑھتی ہے۔

ہم کریں کیا؟ مجھے لگا اب حل کی بات کرنے کا وقت ہے۔ انہوں نے بات اختتام کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’یہی وہ نقطہ ہے جو سب سے زیادہ ڈسکس کیا جانا چاہیئے تھا۔ اول تو مسلم ممالک کو ایک اتحاد بنانے کی ضرورت ہے جو دنیا میں کافی اہمیت رکھتا ہو۔حضرت محمد ﷺ کی عظمت کا یہی تقاضا ہے اس وقت۔ اس اتحاد کو مغرب سے گفت و شنید شروع کرنی چاہیئے۔ ایسے معاملات کیلئے سفیر واپس بلانے کی بجائے سفارتی سطح پر ملاقاتیں ہونی چاہیئں۔

احتیاط سے بات ہونی چاہیئے کیونکہ اگلے طاقتور بھی ہیں اور آپ کی بد کلامی سے ان کے بھی جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔ آپ دشمنیاں مول نہیں لے سکتے۔ ہم سب مسلم ممالک اقوام متحدہ کے انڈر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے پانچ مستقل ارکان میں سے چار عیسائیوں کے ہیں۔ آپ ان کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا احتیاط سے لابنگ کریں اور اپنے مسلمان دانشوروں کو مغرب میں بھیجیں تا کہ وہ وہاں کے لوگوں کو سمجھا سکیں کہ مسلمانوں کے نزدیک مقدس ہستیوں کی کتنی حرمت ہے اور کیوں وہ ان کی ادنٰی درجے میں توہین بھی برداشت نہیں کریں گے۔

اپنے لوگوں کو بھی تمیز اور استدلال کے ساتھ مکالمے کا سبق دیں۔ قتل قتال سے بالکل پرہیز کریں۔ بہت سے انتہا پسند گروہ مسلمانوں کے ہیں، ان سے اور ان کے اقدامات سے بیزاری کا کھلے عام اظہار کریں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ خون بہنے کے بعد بات زبان سے نہیں ہو سکتی اور یہ فی الحال  اسی لیے نہیں ہو پا رہی۔ فرانس اور مسلمانوں کی سوچ کے فاصلے مٹانے ہوں گے۔‘‘ انہوں نے اس کے بعد الوداعی کلمات ادا کر کے کال رکھ دی تھی جبکہ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ دنیا بھر کے دانشوروں کو اب افکار کے یہ فاصلے مٹانے پڑیں گے، یہ نہ مٹے تو نتیجہ پوری دنیا بھگتے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :