انسانی صفات کے ماڈل

پیر 26 جولائی 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

آپ نے اکثر دوسروں کو بلکہ بعض دفعہ اپنے آپ کو بھی کہتے ہوئے سنا ہوگا
"میں نے خود کو بہت مشکل سے روکا"
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "میں "کون ہوں جس نے "خود "کو بہت مشکل سے روکا؟
حقیقتاً  " میں " اور" خود "ہماری ذات کے دو مختلف حصے ہیں۔اس مثال میں " خود "من مانی کرنا چاہتا ہے جب کہ " میں "اس کوروکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
"خود" ہماری شخصیت کا وہ حصہ ہے جو ہماری بنیادی خواہشات کا چیمپئن ہے اور ان خواہشات کی تسکین کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

" میں "ہماری ذات کا وہ حصہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ شعور کی منزلیں طے کر چکا ہے اور برے اور بھلے کی تمیز کرنے لگا ہے۔مذہب بھی ابتداء ہی سے اچھے برے کی تمیز کراتا ہے اور مکمل ضابطہ اخلاق سے آ گاہی کراتا ہے۔ جن گھر انوں میں ابتداء ہی سے بچوں کو مذہب سے روشناس کرایا جاتا ہے، وہ عموی طور پر بہتر انسان بنتے ہیں۔

(جاری ہے)

اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو پھر" خود "کو ٹوکنے والا کوئی نہیں اور انسان اور جانور ں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔

جس کے لئے صرف  اپنی ذات کی تسکین ہی مقدم رہ جاتی ہے۔
دیکھا جائے تو "خود" ایک ایسا منہ زور گھوڑا ہے جو انسان کی ذات کے اندر موجود ہے  اور ہر حال میں اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے(اس کو عام زبان میں نفس بھی کہا جاتا ہے)۔ اس منہ زور گھوڑے کو اگر قابو نہ کی جائے اور اس کا بس چلے تو یہ اپنے سوارکو گرا کر روندتا ہو ا چلا  جائے۔ جس طرح دشمن سے لڑنے کے لئے فوج کو بہت سخت تربیت دی جاتی ہے اور مرو یا مر جاؤ کا سبق سکھایا جاتا ہے۔

اسی طرح خود سے لڑنے اور اسے قابو میں رکھنے کی لئے انسان کو بہت سخت، مسلسل اور دیر پا  تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک تا عمر قائم رہنے والا محاذ ہے۔ بطور انسان ہمارے لئے یہ ایک مسلسل جدوجہد  ہے کہ "میں " کو کیسے مضبوط  بنائیں تاکہ وہ" خود" کو قابومیں کھ سکے
ایک عام شخص" خود "کو دل اور "میں " کو دماغ بھی کہہ سکتا ہے۔مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔

مختلف وقتوں میں مفکروں، دانشوروں، فلاسفروں، ماہر نفسیات اور مذہبی سکالروں نے اپنے اپنے طور پرلائف ماڈل پیش کئے ہیں اور ان کی تشریح کی ہے۔ان ماڈلز کی مدد سے ہم اپنی ذات کے دو حصوں یعنی" میں " اور "خود "کو سمجھنے کی کی ابتداء کرتے ہیں۔
لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ انسان کے اندراچھائی اور برائی یعنی نیکی اور بدی کی دونوں موجود ہیں اور ایک دسرے سے برسر پیکار ہیں۔

اگر انسان نیکی کی قوتوں کی آبیاری کرتا ہے یعنی" میں " کے زیر اثر ہے تو اس کی زندگی اور آخرت دونوں آسان ہیں اگر وہ خدا نخواستہ  بدی کی قوتوں کے زیرِ اثر ہے یعنی "خود "پر قابو نہ پا سکا تو پھر وہ انسان یقنیناً خسارے میں ہے۔
انسانی صفات کے ماڈل پرکافی تحقیقی مواد موجود ہے۔اس  سلسلے میں ابراہام مازلو، سیگمنڈ فرائیڈ اور ولیم گلاسر کے انسانی صفات  (لائف سکلز ماڈلز)  کے ماڈل موجود ہیں۔

ان تین ماڈلز کے علاوہ اسلامی ماڈل اورخاص طور سے امام غزالی کے انسانی صفات ماڈل بہت سارے سوالات کے منطقی  جوابات مہیا کرتے  ہیں
مازلو ماڈل
ابراہام مازلو(۰۷۹۱ء) ایک ماہر ِ نفسیات تھا۔ اس نے انسانی ضروریات کی ایک ترجیہی فہرست ترتیب دی تھی جو آج بھی کارآمد ہے اور انسانی نفسیات کی وضاحت کے لئے ایک اہم درجہ رکھتی ہے۔

اس کا مانناتھا کہ
اگر انسان بھوکا یاپیاسا ہو تو اس کی ساری توجہ اپنی بھوک اور پیاس کو مٹانے کی طرف ہوتی ہے۔
ایک دفعہ یہ خواہشات پوری ہوجائیں تو پھر اسے اپنے تحفظ اور سلامتی کی فکر ہوتی ہے۔
تحفظ اورسلامتی کی ضمانت مل جائے تو پھراس کا رخ محبت اور میل ملاپ کی طرف ہوتا ہے اور اس میں بھی اس کی زیادہ توجہ اپنی عزت نفس کی طرف ہوتی ہے۔


جب یہ ساری خواہشات پوری ہو جائیں تب وہ خود آگاہی اور خود شناسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے
سیگمنڈ فرائیڈ ماڈل
سگمنڈ فرائیڈ پہلا نفسیاتی تجزیہ کار تھا جس نے ایک منطقی اور مربوط لائف ماڈل کا تصور پیش کیا۔ اس کے پیش کردہ لائف ماڈل کے مطابق انسانی شخصیت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔آئی ڈی، ایگو اور سپر ایگو۔

  یہ تینوں حصے ہماری زندگی کے مختلف ادوار میں ہماری شخصیت پر مختلف انداز میں اثرا نداز ہوتے ہیں۔ انسانی شخصیت کی کارکردگی ان تینوں کی مجموعی کارکردگی پر منحصر ہے۔ اس مناسبت سے ہمیں ان کی کارکردگی کو سمجھنے کی ضرورت ہے
آئی ڈی (انٹرنل ڈرائیو)کی بنیاد ہماری نہ ختم ہونیوالی خواہشات پرہے۔ اسے تمام چیزیں فوراً اور ہر حال میں چاہئے ہوتی ہیں (اسے" خود "سمجھ سکتے ہیں)۔

جب کہ سپر ایگو کا کردار ایک باپ کاسا ہے جو آئی ڈی کی بہت ساری مانگ کو رد کرتا ہے۔(یہ" میں " کا کردارہے)
ایگو شخصیت کا ایک منظم حصہ جو آئی ڈی اور سپر ایگو کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے۔
 آئی ڈی۔(نظریہ مسرت)
آئی ڈی انسانی شخصیت کا سب سے سے زیادہ غیرمنظم حصہ ہے جو انسانی شخصیت میں پیدائش کے وقت سے ہی موجود ہوتا ہے۔

یہ ہماری جسمانی ضروریات، خواہشات۔ تمناؤں اور خصوصی طور پر ہماری جنسی اور جذباتی خواہشات کا منبع ہے۔ آئی ڈی میں لیبیڈو شامل ہے جو ہماری جبلت کا بنیادی منبع ہے اور حقائق سے نظریں چراتا ہے۔
آئی ڈی فقط فوری لطف اندوزی کے نظریہ کا حامی ہے۔اگر انسانی دماغ صرف آئی ڈی کے نظرئے پر کام کرتا توکسی شخص کے لئے ہوٹل میں کھانے کا انتظار کرنا محال ہوتا اور وہ اپنی بھوک کو آسودہ کرنے کے لئے اور کسی بھی نزدیک میز سے کھانا اٹھا کر اپنی ضرورت کو پورا کر لیتا۔


فرائیڈ کے مطابق ایک نو مولود کا دماغ مکمل طور سے آئی ڈی کے طابع ہوتاہے جو ہرحال میں اپنی خواہش کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔اس کی نظر میں کسی اخلاقی، غیراخلاقی، اچھے، برے اور ممنوع کام کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
ایگو (نظریہ حقیقی)
ایگو شخصی ڈھانچہ کا ایک منظم حصہ ہے جس میں مدافعتی، ادراکی،دانشورانہ اور انتظامی خصوصیات شامل ہیں۔

ایگو میں شعوری صلاحیتیں بھی موجود ہوتی ہیں، گو کہ ایگو کے تمام آپریشنز شعوری نہیں ہوتے۔ایگو بسا اوقات منطق سے بھی کام لیتی ہے جو آئی ڈی کی بے صبرطبیعت کے بالکل برخلاف ہے۔ ایگو کو آپ ایک منہ زور گھوڑے پربیٹھا ہوا سوار سمجھ سکتے ہیں۔ جسے گھوڑے سے کام بھی لینا ہے اور خود کو گرنے بھی نہیں دینا۔
گو کہ ایگو اصول پسندی کی قائل ہے لیکن اسے بہرحال آئی ڈی کو بھی خوش رکھنا پڑتا ہے،
دنیاداری بھی نبھانی پڑتی ہے اور یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ ایگو بسا اوقات مصلحت پسندی سے بھی کام لیتی ہے، حقائق سے نظر پھیر لیتی ہے اور ایک خوشگوارتصویر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
سپر ایگو (نظر یہ اخلاق)
سپر ایگو اخلاقی اصولوں کی علمبردار ہے جن کی تعلیم ہمیں زیادہ تر ہمارے والدین نے دی ہے۔ انسانی شخصیت میں سپر ایگو کا  علامتی پدرانہ کردار ہے۔ یہ آئی ڈی کی بچکانہ اور بے مہار خواہشوں کا مقابلہ کرتی ہے، انہیں راہِ راست پر رکھنے اور اس کی ایگو مخالف اقدامات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے
سپر ایگو انسانی شخصیت کا سب سے آخرمیں تشکیل پانے والا حصہ ہے۔

یہ ممکن ہے کہ ایگو اور سپر ایگو ایک ہی فیصلے پر پہنچیں لیکن ایگو کا فیصلہ اس بنیاد پر ہو گا کہ لو گ کیا کہیں گے جب کہ سپر ایگو اخلاقی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔
فرائیڈ کے نفسیاتی ماڈل میں ایگو اور سپر ایگو بھی شامل ہیں۔فرائیڈ کے مطاق ایگو انسانی شخصیت کا وہ حصہ ہے جو بہت منظم ہے۔ اس میں مدافعانہ، تخیلاتی اور سوچنے کی صلاحتیں ہوتی ہیں۔

یہ حقیقی اصولوں پر کام کرتی ہے،منطق اور کامن سنس کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔
فرائیڈ کے مطابق ایگو، آئی ڈی کی بچکانہ خواہشات اور حقیقت میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتی اور ان دونوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتی ہے۔ آئی ڈی اور ایگو کی مثال گھوڑے اور سوار کی ہے، گھوڑا اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے جبکہ سوار اسے قابو میں رکھنا چاہتا ہے۔


اس مناسبت سے ہمیں انسانی خواہشات(آئی ڈی) اور ایگو کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنی چاہئیں اور انہیں زندگی کی بڑی تصویر میں مناسب جگہ دینی چاہئے۔ برے اور بھلے میں تمیز کرنی چاہی۔" میں " کو مضبوط کرنا چاہئے تاکہ وہ "خود "کو اور آئی ڈی کو قابو میں رکھ سکے۔ ایگو سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا داری نبھانا اس کی گھٹی میں پڑی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :