ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟؟

منگل 7 مئی 2019

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

آفس سے فارغ ہوا تو گھر جانے کی جلدی تھی صبح دوست کے ساتھ طے ہوا تھا کہ رات کو ملاقات ہوگی۔ مجھے آفس سے پہلے گھر جانا تھا وہاں سے دوست نے میری طرف آنا تھا یہی پلان تھا۔ گھر جانے کے لیے میں نے اوبر ایپ کے ذریعے گاڑی منگوائی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ میں نے راستہ سمجھانا شروع کردیا، اس نے سر کے اشارے سے بتایا کہ وہ راستہ سمجھ چکا ہے۔

گاڑی نے سفر شروع کیا تو ڈرائیورنے دوبارہ مجھے مخاطب کیا” کیا یہاں پر کوئی مسجد ہے؟ جی آگے کا پتا نہیں میرے آفس کے ساتھ ہی مسجد ہے میں نے جواب دیا۔ او ہ! آگے کسی مسجد کا نہیں پتا آپ کو؟ چلیں میں خود ہی ڈھونڈ لیتا ہوں ڈرائیور نے سوال کر کے اس کا جواب بھی دے دیا ۔ ”آ پ نے نماز پڑھنی ہے، کون سی نماز پڑھنی ہے؟ اس مرتبہ سوال میں نے پوچھا ۔

(جاری ہے)

عشاء کی نماز مختصر جواب آیا۔ مگر عشاء کی نماز تو آپ آرام سے پڑھ سکتے ہیں اس کا وقت تو ابھی ہے آ پ میرے گھر کے پاس والی مسجد میں نماز ادا کر لیجیے گا میں نے گاڑی چلانے والے لڑکے کی مشکل آسان کرنے کی کوشش کی۔ اس نے میری طرف گھور کر دیکھا ”بھائی یہ تو مجھے بھی پتا ہے میں کہہ رہا تھا راستے میں کسی مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی جائے اس کا ثواب زیادہ ہے “ ۔

اس کی بات سن کر میں خاموش ہوگیا اب اس کے بعد میں دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگا ۔ مجھے جانا بھی جلدی ہے اور یہ بھائی نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ جماعت کے ساتھ ہی نماز ادا کرنا چاہتا تھا تو اس نے میری رائیڈ کیوں لی؟ دوسرے ہی لمحے مجھے خیال آیا کیا میں کسی کی عبادت میں رکاوٹ بن رہاہوں؟ اگر میں نماز پڑھنے کے لیے رک جاؤں تو زائد وقت کا کرایہ بھی مجھے ہی ادا کرنا ہوگا ،دوسرا میرا دوست بھی پہنچنے والا ہوگااگر میں یہاں رک جاتا ہوں تو اسے وہاں انتظار کی زحمت اٹھانا پڑے گی۔

میں بالکل خاموش رہا لڑکا سمجھ گیا کہ میری کیا مرضی ہے۔ اس نے گاڑی کی رفتار بڑھادی اور گاڑیوں کو دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف سے کراس کرنے لگا ۔ میں اپنے گھر پہنچ کر یہی سوچتا رہا کیا میں نے آج ٹھیک حرکت کی؟ مجھے یاد آگیا کہ مجھے جس ادارے میں پہلے کام کرنے کا موقع ملا وہاں رمضان کے مہینے میں ماحول یکسر بدل جاتا تھا۔ مثال کے طور پر معمولی سے کام کے سلسلے میں جب مجھے اوپر والی منزل پر جانا پڑتا وہاں موجود خاتون تسبیح میں مشغول ہوتیں ،میں دیکھ کر پریشان ہوجاتا مجھے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی آفس کے کام کے لیے انہیں ڈسٹرب کرنا پڑتا۔

اس پر وہ مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتیں جس کا صاف مطلب ہوتا خود تو عبادت کرنی نہیں کوئی اور کر رہا ہو تو کم ازکم اسے تو تنگ نہ کیا کرو۔ میری پریشانی اس لیے بڑھ جاتی ہے جب میں سوچتا ہوں کون سی عبادت آپ کو کام کرنے سے روکتی ہے۔ کام کے وقت عبادت میں مشغول رہنا کہاں کا انصاف ہے؟ کام بھی وہ جس کا آپ کو معاضہ باقاعدگی سے لیتے ہیں۔اسی طرح اس دفتر کے اکثر ملازم چھوٹے چھوٹے کاموں سے انکار اس لیے کردیتے تھے بقول ان کے وہ روزے کی حالت میں ہیں۔

مجھے ذاتی طور پر یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے آ پ جو بھی کام کرتے ہیں اگر دیانت داری سے کر رہے ہیں تو اس کی بھی خدا کے ہاں پسندیدگی ہوگی۔ میرا علم محدودہے ہو سکتا ہے عبادت کا متبادل کچھ بھی نہ ہو۔ مگر رمضان کے مہینے میں عام دفاتر میں کام کی رفتار سست اور سرکاری دفاتر میں کام بالکل رک سے جاتے ہیں، جہاں جائیں جواب ملتا ہے رمضان کے بعد۔اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر عبادت کرنے والے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔

اس طرح کے لوگوں کو ناجانے دیانت دار کہا جائے گا یا بد دیانت اس کا فیصلہ خدا نے کرنا ہے۔اس طرح کے چند واقعات میرے ساتھ پیش آئے ہیں میں عجیب الجھن کا شکار ہوں ہوسکتا آپ یہ تحریر پڑھنے کے بعد میری اس الجھن کا کچھ حل کرسکیں۔اس طرح سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے ہٹ دھرمی کیا مناسب ہے؟ اگر نہیں تو ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :