چلتے ہیں شہر کی گلیوں میں

بدھ 22 ستمبر 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

بلاشبہ شہر قائد کی ستانوے فیصد سے ذائد آبادی گلی محلوں میں رہتی ہے جنہیں عرف عام میں متوسط طبقہ یا سفید پوش گھرانے کہا جاتا ہے۔ یہاں پر خاص طور پر ان علاقوں جن میں ملیر، لانڈھی، کورنگی، شاہ فیصل کالونی، لیاقت آباد، نیوکراچی،صدر،پاک کالونی،  اورنگی ٹاوّن قصبہ کالونی، بلدیہ ٹاوّن اورلیاری وغیرہ ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ میری بات سے اتفاق کریں یا نا کریں مگر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں نے صرف مزدور طبقہ یا ملازمت پیشہ افراد ہی پیدا کئے ہیں۔

تقریبآ آدھے سے زیادہ لوگ یا تومختلف فیکٹریوں، دفاتر وغیرہ میں شفٹوں میں کام کرتے ہیں یا حصول روزگار کے لئے پارٹ ٹائم کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یعنی کے اگر دن میں کام کرنے والا رات میں آرام ضرور کرے گا اور رات میں کام کرنے والا دن میں آرام کرے گا۔

(جاری ہے)

۔ تاہم ان گلیوں کا حال دیکھنے کے لئے اندر جانا پڑے گا۔ جہاں تھکے ہارے انسان، بزرگ شہریوں اور بچوں کو کن پریشانی سے گزرنا پڑتا ہے۔

صبح کی پو پھوٹتے ہی   دودھ والا،  بن ڈبل روٹی والا اپنی سائیکل یا موٹرسائیکل میں "پوں پوں پوں" بجاتے داخل ہوتے ہیں اور کسی کے بھی گھر کے دروازے کے باہر اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے سائیکل/موٹرسائیکل لگا کر کان پھاڑ دینے آوازوں سے اپنی آمد کا یقین دلاتے ہیں۔ ظاہر ہے ان آوازوں سے انسانی زندگی اور نفسیات پر کتنا اثر پڑتا ہے وہ شہر کی سڑکوں میں سفر کرنے والے بے ہنگم روانی اورپریشر ہارن کو برداشت کرنے والے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔

اللہ اللہ کر کے ان آوازوں سے جان بچتی ہے تو چند گھنٹوں بعد ہی، آئسکریم والے، پاپڑ والے، ٹین ڈبے والے اور سبزی والوں کے ٹھیلے نمودار ہوجاتے ہیں جن کی بھانت بھانت کی آوازیں سن کر دن بھر کے تھکے ماندہ افراد، بزرگ و بیمار شہریوں پر کتنا گراں گزرتا ہے شائد اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ سلسلہ شام تک جاری رہتا ہے اور اس کھیل میں گلیوں میں گردش کرتے  نت نئے ٹھیلے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔

یعنی کے رات بھر محنت مزوری کرکے آنے والے شخص کی زندگی کام کے اوقات میں بھی اجیرن تھی اور دن بھر بھی اس کا سکون لوٹ لیا جاتا ہے۔
اب ذکر کرتے ہیں رات  کے مسائل کا، دن بھر کے ملازمت پیشہ افراد شام کو گھر لوٹنے ہیں تو چند گھنٹے اپنے دوست، عزیز و اقارب، اہلخانہ کے ساتھ گزارنے کے بعد جلدی سونے کا قصد کرتے ہیں تو رات گئے تک موٹرسائیکلوں کا سائلینسر نکالے نوجوان بلاعذر گلیوں کے ادھر سے ادھر چکر لگاتے رہتے ہیں، یا  پھر اپنے ہاتھوں میں چھوٹا سا "دیا" پکڑے (موبائل فون کی اسکرین) نا محرموں سے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔


 جن کو سرزش کرنا یا ٹوکنا کسی بھی شریف انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس کے بعد گلیوں میں بسے آوارہ کتوں کا لشکر کا لشکر اپنی حاکمیت اور علاقے میں قبضہ جمانے کی خاطر ایک دوسرے پر آوازیں کستے نظر آتے ہیں ان کی "بھوں، بھوں" سے  پورا محلہ گونجتا رہتا ہے۔ اہلخانہ ان آوارہ کتوں کے لئے برے القابات نکالتا ہے تو "کے الیکٹرک" انتظامیہ اعلانیہ اورغیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کر کے یہ اعزاز اپنے نام کروا لیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :