آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت

ہفتہ 21 نومبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اپوزیشن الیون نے گلگت بلتستان میں عوام کا فیصلہ حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا کرحسبِ اعلان مسترد کردیا ، پاکستان کے عوام کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں گلگت بلتستان میں دھاندلی کا شور تو پہلے ہی و ہاں کی خوش پوش فضاؤں میں گونج رہا تھا ، دنیا نے میڈیا میں دیکھا کی گلگت بلتستان کے عوام انتہائی سرد ترین موسم اور برف باری میں اپنے بنیادی مسائل کے حل اور آنے والے خوبصورت کل کے لئے گھروں سے نکلے اور اپنے ضمیر کی آواز پر ا پنے چاہنے وا لوں کو ووٹ دیا لیکن پاکستان کے سابق حکمرانوں نے وہ ہی کچھ کیا اور کر رہے ہیں جس کی ان سے امید تھی!
 ممتاز تجزیہ نگار حسن نثار کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں دھاندلی کا شور سیاست کا بنیادی جزو ہے، ایسا کوئی الیکشن نہیں دیکھا جس میں دھاندلی کا شور نہ مچا ہو، پاکستان جیسے ملک میں ممکن ہی نہیں کہ انتخابات میں حکومت کا کوئی کردار نہ ہو،دھاندلی کی ایک ہزار قسمیں ہیں اس میں پری پول دھاندلی بھی شامل ہے،ن لیگ کا بیانیہ کوڑا تھا وہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں کوڑے دان میں جاچکا ہے، ن لیگ کا بچا کھچا بیانیہ بھی کوڑے دان میں ہی جائے گا، مجھے گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی سے مزید بہتر کارکردگی کی توقع تھی اب بھی اپنے تجزیے پر قائم ہوں۔

(جاری ہے)


 مسلم لیگ ن کا کہنا ہے ان کے سابق وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن کو پوسٹل ووٹ میں دھاندلی کی وجہ سے ہروایا گیا ہے لیکن شاید وہ نہیں جانتے کی پوسٹل ووٹ 500 سے بھی کم تھے اور وہ 4000کے مقابلے میں 2100 ووٹ لے کر ہارے ہیں سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نے اپنی ہار کا غصہ پیپلزپارٹی پر نکالتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیل کا کیا نقصان ہوتا ہے ہم نے دیکھ لیا، پیپلزپارٹی والے اپنا کچرا صاف نہیں کرسکے، سندھ حکومت اپنے صوبے میں کوئی بہتری نہ لاسکی کروڑوں روپے گلگت میں لا کر جھونک دیئے۔

اور کلین سویپ کا نعرہ لگاتی رہی انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان الیکشن میں سندھ اور وفاق کے وسائل کا مقابلہ رہا۔
گلگت بلتستان میں اپوزیشن الیون کی شکست میاں محمد نواز شریف کا افواجِ پاکستان کے خلاف ان کا توہین آمیز بیان ہے اور پیپلز پار ٹی نے اس بیانئے کا ساتھ دیکر اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری اور مارہے ہیں گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کے سابق وزیرِ اعلیٰ کے بیان کے بعد بھی اگر پیپلز پارٹی ان ساتھ کھڑی ہے تو یہ پیپلز پارٹی کے شہید قیادت اور حسنِ جمہوریت کے لئے دیئے گئے جیالوں کے خون کی تو ہین ہے۔

گلگت بلتستان کے عوام کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا وہاں کے عوام اور الیکشن کمیشن کی حب الوطنی پر عدمِ اعتماد ہے جمہوری معاشرے کے حسن کے لئے سیاسی میدان میں شکست کو تسلیم کرنے کا حوصلہ سیاستدان کی قومی پہچان ہے لیکن ہمارے قومی سیا ستدانوں کا ایمان ہے کہ اگر وہ جیتے تو الیکشن زندہ باد اور اگر ہارے تو الیکشن مردہ باد!!
گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمیشن راجہ شہباز خان کہتے ہیں کی الیکشن صاف اور شفاف تھے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کریں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی بجائے اگر اعتر اضات ہیں تو قانونی تقاضوں کے مطابق رابطہ کریں ، پیپلز پارٹی کی شیری رحمان بھی اپنے چہرے کا غازہ دھو کر شہید بے نظیر بھٹو کی حسنِ بصیرت اورخوبصورت سیاسی چہرے کو سامنے لائیں یہ ہی پیپلز پارٹی کے تابناک مستقبل کا تقاضہ ہے
 گلگت بلتستان کے انتخابی عمل کون جیتا کون ہارا ،یہ بھول جائیں یاد رکھیں تو صرف یہ کہ جن مقاصد کے حصول کے لئے انتخابی عمل، عمل میں آیا اسے نظر انداز نہ کیا جائے حکومت اور اپوزیشن نے انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے ان غیور عوام سے وعدے کئے ہیں وہ ہر صورت میں پورے ہونے چا ہییں انتخاباتمیں د و سیاسی جماعتوں کو عوام نے قومی سیاسی جماعتوں کے اعزاز سے نوازا ہے۔

اس لئے دونوں سیاسی جماعتوں کو بھی عوام کے فیصلے اور ووٹ کی طاقت کا احترام کرنا چاہیے پاکستان کے عوام اس حقیقت سے انکا ر نہیں کریں گے کہ پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان اور پاکستان کے قومی اداروں کے احترام میں پیش پیش ہیں اس لئے پاکستان کے عوام اور ان کے انتخابی فیصلے کا احترام دونوں جماعتوں پر بھی لازم ہے اور اگر پاکستان میں دو جماعتی سیاست کو فروغ ملا تو ہم پاکستان کے عوام دعوے سے کہتے ہیں کہ پاکستان حقیقی معنوں میں دنیائے اسلام کا قلعہ ہو گا ،ان شاء اللہ !!!
گلگت بلتستان کے انتخابات میں عوام کی دلچسپی اور اپوزیشن کی میں نہ مانوں منشور کے پیش نظر وطن عزیز میں انتخابی اصلاحات کے لئے وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام لانے کے لئے مل بیٹھ کر مشورہ کرتے ہیں‘سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کی بجائے شو آ ف ہینڈ کیلئے پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کرتے ہیں آ ئینی ترامیم کیلئے اپوزیشن جماعتوں کا تعاون ضروری ہے ‘ چاہتے ہیں کہ اگلا الیکشن بشمول آ زاد کشمیر اور سینیٹ ایسا ہو کہ ہارنے والا شکست تسلیم کرے،اوورسیز پاکستانیوں کیلئے بھی ایک سسٹم بنائیں تاکہ وہ بھی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں ہم انتخابات میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں الیکشن میں ماڈرن ٹیکنالوجی کااستعمال کریں گے سب کو معلوم ہے کہ سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلتا ہے‘اس کو روکنے کیلئے حکومے سینیٹ الیکشن میں شو آ ف ہینڈز (ہاتھ کھڑا کرکے ووٹنگ) کے لیے پارلیمنٹ میں آ ئینی ترمیم کا بل پیش کرے گی‘ اب یہ باقی سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس آئینی ترمیم کی حمایت کرتی ہیں یا نہیں کیوں کہ اس کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے جو حکومت کے پاس نہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :