میں 20 سال بعد سیاست میں آنے پر غور کر سکتی ہوں۔۔ ملالہ یوسف زئی

جمعرات 18 فروری 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

 بی بی سی کے کالم نگار ہیزل شیرِنگ نے ملالہ یوسف سے حالیہ انٹرویو میں لکھا ہے اور میں نے اس وقت لکھا تھا جب آٹھ سال قبل ملالہ یوسفزئی سوات میں طالبان نے سکول جاتے ہوئے سر میں گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ کہتی تھیں کہ لڑکیوں کا سکول جانا ضروری ہے۔ اسے سکول وین میں دہشت گر دوں نے نشانہ بنایاگیا تھا !!
 ملالہ ،پاکستان اور پاکستان سے محبت کرنے والی باضمیر قوم کا خوبصورت چہرہ ، خیبر پختون خوا کی بے نظیر بیٹی ،علم وفن کی علمبردار ،شعور وفکر کی پہچان ،ظلم وبربریت کے خلاف صدائے حق کی شان ،ایک معصوم صدا ،جاگو!آنے والے وقت کو سوچو،آنے والے کل کو تمہارے بچوں کا قتل عام ہوگا۔

ظالمان تمہاری دہلیز پر ظلم وبربریت میں فرعونیت کا روپ ہیں۔

(جاری ہے)

جھنجھوڑکر رکھ دیا ملالہ کے معصوم وجود سے گرنے والے خون کے قطرں نے عالم انسانیت کو !خودپرست ،مردہ ضمیر ،ایمان فروش وظیفہ خور پریشان ہیں ،شور مچارہے ہیں قوم کو گمراہ کررہے ہیں ایک ملالہ ہی کیوں؟
ملالہ اس لیے کہ وہ آواز ہے حقائق کی ،وہ آواز جس نے الیکٹرونکس اور پرنٹ میڈیا کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔

ملالہ پر حملے کو اْچھالا نہیں گیا بلکہ سچائی اور حقیقت کی عکاسی میں قوم کی جذباتی تصویر دیکھا کر عالم انسانیت پر ثابت کر دیا کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ظلم وبربریت کے خلاف مقتل میں بھی زندگی کے حسن سے بے پرواہ !مذہب اور وطن کیلئے ایک جان ،پیارا پاکستان ،دنیا نے دیکھ لیا ہم عالم اسلام کی عظیم قوت ہیں ،ہم صاحب ِایمان ہیں ،ایمان ہی ہماری وہ قوت ہے جس کی دہلیز پر موت کا خوف بھی پریشان ہے !رقصاں ہے تو بدنصیبی ،سیاستدان مغربی غلام ہیں۔


ملالہ پیغام ہے نام نہاد عالمانِ دین کیلئے ،جوگاتے ہیں گیت ظالمان کا،ملالہ نے اْن کو بے نقاب کر دیا قوم نے سیاستدانوں اور ظالمان کے قدردان عالمان کے چہرے دیکھ لیے ہیں۔دنیانے پاکستان اور پاکستان کی عوام کا چہرہ دیکھ لیا ہے۔رات کی تاریکی آنے کو سوچے گی۔ملالہ کی روشنی کو ،اْس روشنی کو جس میں قوم کی بیٹیوں نے اپنے اپنے جبینوں پر لکھ دیا ،،میں ملالہ ہوں،، میں ملالہ ہوں
 ہیزل شیرِنگ لکھتے ہیں !! نوبل انعام یافتہ اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی سرگرم کارکن 23 سالہ ملالہ یوسفزئی کوآٹھ سال قبل ملالہ یوسفزئی کو برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال میں زخمی حالت میں لایا گیا تھا۔

انہوں نے لارن لیورنی کو بتایا کہ جب ان کو ہوش آیا تو انھیں یہ سمجھ نہیں آ ر ہی تھی کہ وہ کتنے دنوں تک ہسپتال میں رہیں گی ملالہ نے اپنے والد سے کہا کہ ان کی فزکس کی کتاب لا دیں کیونکہ پاکستان میں ان کے امتحان قریب آ رہے ہیں۔ اس کے بعد سے برمنگھم ہمارا دوسرا گھر بن گیا۔مقامی 'برومی' لہجے میں انھیں اب عبور حاصل ہو گیا ہے۔ گزشتہ سال ملالہ نے یونیورسٹی آف اکسفورڈ سے فلسفے، سیاسیات اور معاشیات میں ڈگری حاصل کی ملالہ کہتی ہیں’ وہ گھر میں ایک مختلف ملالہ ہوتی ہے‘۔

میں ایک طرح سے بہت حکم چلاتی ہوں، مثبت انداز میں‘۔ میں اپنے بھائیوں کو ہمیشہ سمجھاتی رہتی ہوں انھیں شاید اس کی ضرورت پڑتی ہے لڑکوں کو بہت سمجھانا پڑتا ہے۔'
 وہ کہتی ہیں کہ ان کے ابا ضیا الدین خواتین کے حقوق کے زبردست حامی ہیں انھیں اپنی بہنوں کے ساتھ روا رکھا گیا رویہ بالکل پسند نہیں تھا اور انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میرے ساتھ اسی طرح کا سلوک ہو جیسا کہ میرے بھائیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

ملالہ کہتی ہے کہ جب وہ چھوٹی تھیں تو بہت سوچتی تھیں۔
'ایک دن جب میں وزیر اعظم بن جاو ں گی تو سب کچھ ٹھیک کر دوں گی۔'اب مجھے پتا چلا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے اور بہت پیچیدگیاں ہیں۔'
فی الحال میری توجہ لڑکیوں کی تعلیم پر ہے اور اس کے بعد معلوم نہیں۔ میں 20 سال بعد سیاست میں آنے پر غور کر سکتی ہوں۔ اس کے لیے بہت وقت پڑا ہے۔'
ملالہ سے متعلق میں نے بہت پہلے اپنے کا لم میں لکھا تھا کہ ملالہ دنیائے اسلام میں علم وعمل کی وہ معصوم علمبردار بیٹی ہے جس کی عظمت کو دور ِحاضر میں ہر صاحب کردار سلام کر تاہے اس لیے کہ ملالہ کے لہوکے چند قطروں سے نہ صرف پاکستان ،عالم اسلام بلکہ مغربی قوتیں تک یہ کہنے پر مجبور ہوگئیں کہ ملالہ پر گولی چلانے والے مومن نہیں ہو سکتے۔

ملالہ کی ذات اور حسن کردار پر اْنگلی اْٹھانے والے دراصل ظالمان سوچ کے پیروکار ہیں۔اگر صاحب ِایمان ہیں تو اپنے اْس دل میں جھانک کر دیکھیں جس میں شمع رسالت کی روشنی ہے دل میں دیکھ کر سوچیں کہ کیا ملالہ سرور ِکائنات کا وہ پیغام نہیں جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ” علم حاصل کرو“کیا ملالہ سرور ِکائناتکی پہلی وحی کی علمبردار نہیں۔ملالہ کا جرم کیا تھا یہی کہ علم حاصل کریں خواتین پر علم کے حصول کی پابندی دین ِمصطفیٰکی توہین ہے اور ملالہ یہ سب کچھ اْس دور میں کہہ رہی تھی جب بڑے بڑے عالم دین موت کے خوف سے زبانوں کو تالے لگائے بیٹھے تھے۔


ملالہ کسی ایک ذات یا شخصیت کا نام نہیں ملالہ ایک سوچ ہے ایک پیغام ہے ایک کردار ہے ایک فکر ایک خیال ہے اْس ظالم کی سوچ اور کردار کے خلاف حصولِ علم کے راستے میں اْس کانٹے کے خلاف جو عظمت پاکستان کے راستے میں اْگ آیا ہے۔ظالمان نے ملالہ کو نشانہ بنایا تو صرف اس لیے کہ وہ اْن کے منافقانہ تبلیغ کی حمایت نہیں کرتی تھی اور ظالمان کو دکھ تھا بلکہ وہ شرمندہ تھے کہ ایک معصوم لڑکی ہمارے کردار کے بدنما چہرے پر تھوک رہی ہے۔

وہ ملالہ کے آنے والے کل سے خوفزدہ تھے وہ ایسی ملالا?ں کی زبان بندی چاہتے تھے ایسی ہی ملالائیں آنے والے کل کو اْن کے خلاف میدانِ عمل میں ہوں گی یہی ایک خوف تھا ظالمان کو اور جس بات سے وہ خوفزدہ تھے وہ ملالہ پر ہاتھ اْٹھانے سے اْنہوں نے دیکھ لیا کہ ہمارے کردار سے دنیا بھر کی قومیں کس قدر نفرت کرتی ہیں ملالہ نے اپنے خون کے چند قطروں کے آئینے میں ظالمان کو اْن کا چہرہ دیکھا دیا۔

کہ دنیا اْن کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔
کچھ خودپرست طالبان سوچ کر علمبردار کہتے ہیں کہ ملالہ پر حملے کی بلاوجہ تشہیر کی گئی جبکہ یہ تشہیر ملالہ کی نہیں بلکہ الیکٹرونکس اور پرنٹ میڈیا نے اپنے ضمیر اور مذہبی کردار کی تشہیر ہے یہ زندہ ضمیر لوگوں کے ضمیر کی آواز کی تشہیر ہے۔اس تشہیر میں دنیائے عالم نے پاکستان کا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے۔

ہم پاکستانی تو دہشت گردی میں مشہور تھے۔ہم سے عالمی دنیا خوفزدہ تھی لیکن ملالہ پر ہونے والے بزدلانہ حملے کی تشہیر میں دنیا کو پاکستان اور پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کا احساس ہوگیا۔ملالہ کے وجود سے گرنے والے خون کے چند قطروں نے دنیا بھر کی قوموں کی آنکھیں کھول دیں۔دنیائے اسلام کی مغربی قوموں اور یہودیوں تک نے پاکستان کی سرزمین پر ظالمان کے کردار کو دیکھ کر اسے انسانیت سوز قرار دے دیا۔

آج اگر پاکستان کا سر فخر سے بلند ہے تو صرف اس لیے کہ پاکستان کی بیٹیوں نے اپنی پیشانی پر لکھ دیا ہے میں ملالہ ہوں۔اور جب قوم کی بیٹیاں قوم کے بیٹوں کے شانہ بشانہ ہوں تو وہ قومیں کبھی شکست سے دوچار نہیں ہوتیں۔
ملالہ پر حملے میں پاکستان کے ہر مکتبہ فکر کی ہر عمر کی جان کھلی کتاب بن کر سامنے آگئی یہ ہماری قوم کی مذہبی شان ہے اور ہمیں اپنی مذہبی قومی شان پر فخر ہے۔

ہمارے جذبات کی عکاسی میں ملالہ کا کردار پیغام امن ہے اور ملالہ اپنی عمر کے حوالے سے اپنے کردار میں دنیائے عالم کو امن کا پیغام ہے۔ملالہ یقین کر لو ،تونے اپنی اْس جبیں پر گولی کا زخم سہا ہے جو تو اپنے خالق کے حضور سجدے میں رکھا کرتی تھی تیر جبیں کے زخم نے تیرے لہو کے قطروں نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔آج قوم کی ہر بیٹی کہتی ہے میں ملالہ ہوں ،کاش! میں ملالہ ہوتی اس لیے کہ
لہو سے گل مکئی لالہ تیرا ،شاداب دامن ہے
 اسی اک خوف میں اب مبتلا مکار دشمن ہے
تری ہم جولیوں کیساتھ تجھ پر تھا ہوا حملہ
 وہ بچے تک نہیں چھوڑیں گے یہ پیغام تھا اْن کا
ترے کردار میں روشن علی اصغر کی تابانی
ترا دشمن یزیدی صفت ہے ،وہ ہے نہیں مومن
اْسے مومن کہوں توہین ہے یہ شانِ مومن کی
بڑا بدبخت طالب ہے ،بڑاظالم یزیدی ہے
جگادی قوم میں تونے محبت غیرتِ ایماں
توکائنات ہے تو شازیہ ،توہی ملالہ ہے
وطن کی شان ہے تو شانِ اْمت کا حوالہ ہے
جمالِ زندگی کی تو ملالہ!خوب دھڑکن ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :