غالب کو دنیا ایک شاعر کی حیثیت سے جانتی اور مانتی ہے لیکن !!!

اتوار 21 فروری 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اردو ادب کی پہلی شخصیت سر سید ہیں سر سید احمد خان قوم کی اصلاح کے لیے لکھا کرتے تھے انہوں نے اپنے خیالات اور تصورات، تقاریر اور تحریروں کے ذریعے عوام تک پہنچائے ۔سادہ نثر کو فروغ دیا قدامت پرستی کا خاتمہ کیا اردو نثر کو استدلال سے روشناس کروایا اور عقلیت کو اپنایا ان کے دلائل مضبوط اور زوردار ہو ا کرتے تھے۔سادہ اور عام فہم اسلوب سے ہر خاص و عام تک اپنی بات پہنچا یا کرتے تھے۔

اس لئے میں بھی سر سید احمد خان کے نقش ِ قدم پر دنیائے اردو میں خود کو شاد اور شمشاد رکھے ہوئے ہوں مادری زبان پشتو ہے تعلیم بھی بس نام کی ہے لیکن اردو ادب سے محبت ہے ۔ادبی شعور کی شادابی کے لئے اپنے سے بڑوں اور ان کے بڑوں کو پڑھتا ہوں اور جس کسی دانشور کی ادبی تحریر میں گز شتہ کل کی خوبصور ت جھلک دیکھتا ہوں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ دور ِ حاضر کے ادب پرور ،یاسمین،گلاب ، جگنو اور تتلیاں بھی اپنے ادبی شعور کو سیراب کریں اس لئے کہ اگر ہمارے بڑوں نے اردو ادب کی شادابی کے لئے اپنے اپنے ادوار میں انقلاب پرپا رکھا نہ رکھتے تو اردو ادب کو نہ تویہ وقار حاصل ہوتا اور نہ ہی اردو زبان کی یہ ترقی یافتہ شکل ہمارے سامنے نہ ہوتی۔

(جاری ہے)

یوں کہیں کے ان لوگوںنے اردو ادب میں ایک انقلاب برپا کیا جو نہ صرف اس دور میں بلکہ آج کے دور میں بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جارہاہے تو کیوں نہ ہم اپنے اسلاف کے نقش ِ قدم اگر ان سا عظیم کردار اد نہیں کرسکتے تو نہ سہی ان کی ادب دوستی کی خدمات کی تشہیر تو کر سکتے ہیں ،، میں نے غالب سے متعلق دھر میندر سنگھ کی تحریر پڑھی تو لطف آیا!!
  غالب کے خطوط کے حوالے سے معاشرتی حالات سے موسم تک پر بہترین تبصر ے میںدھرمیندر سنگھ لکھتے ہیں غالِب کا ایک مقبول و معروف شعر ہے:
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
اردو کے مقبول ترین شاعر اسد اللہ خاں غالب کو دنیا ایک شاعر کی حیثیت سے جانتی اور مانتی ہے لیکن ان کے خطوط ان کے دور کی بہترین عکاسی کرتے ہیں جس سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔

غالب کی شاعری ان کی شخصیت کی پہچان ہے لیکن غالب نے اپنے دوستوں، شاگردوں اور نوابوں کو بہت سے خطوط لکھے۔ یہ خطوط انھیں سمجھنے کے لیے ان کی شاعری کی ہی طرح اہم ہیں۔ان خطوط میں خوشی ہے، شفقت ہے، بے بسی ہے، التجا ہے، تعصب ہے، پریشانیوں کا ذکر ہے، دل کی جلن ہے، آب و ہوا کا احساس ہے، شراب ہے، مر ±غیوں کے انڈوں کے برابر گرنے والے اولے ہیں، بارش ہے۔

کھیت ہیں، ربیع و خریف کی فصلیں ہیں، گھر کی دیواروں کی دراڑیں ہیں، دیواروں تلے دب کر مرنے والے لوگ ہیں، انسان کے سکھ چین پر ٹوٹ پڑنے والے لشکر ہیں۔قحط ہیں، سیلاب ہیں، وبائیں ہیں، بخار ہیں، رات کی تاریکیاں ہیں، رات کی تاریکیوں میں نقب لگا کر تختے، دروازے اور چوکھٹیں نکال کر لے جانے والے چور ہیں، اس چوری سے پریشان غریب غربا ہیں، جیشٹھ یعنی مئی جون کی گرمی اور گرم ہوائیں ہیں، گرمیوں کی شدت کم کرنے کے لیے خس ہے، شاعری اور ادب کے تعلق سے مباحثے ہیں، مالی تنگیوں کا رونا ہے، گندم، چنے، باجرے، بیسن اور گھی کی آسمان چھوتی قیمتیں ہیں۔

قبل از وقت مرگ کا نوحہ ہے، دوستوں سے بچھڑنے کا رنج ہے، یادیں، افسردگی، اجڑے اور ویران بازار ہیں، حویلیوں کا ذکر ہے۔ گزرے ہوئے ماضی اور آنے والے مستقبل کا ذکر ہے۔
غالب کے خطوط کا ایک دلکش حصہ کاغذ پر بکھرے ہوئے موسم کے رنگ ہیں، یہ خطوط آب و ہوا کے مرقعے ہیں، یہ اس دہلی کا منظر پیش کرتے ہیں جس کے اوپر کے آسمان اور آنکھوں کے درمیان گرد کا پردہ نہیں تھا۔

رات ہوتے ہی انجمِ رخشندہ یعنی کہکشاں اس طرح پھیل جاتی تھی جیسے کوئی روشنیوں سے جگمگاتا ہوامندر اپنے دروازے کھول رہا ہو اور اس کی روشنی سے سارا ماحول روشنیوں میں نہا گیا ہو۔ شاید اسی طرح کے کسی منظر کے تحت مرزا غالب کے دل نے یہ کہا ہوگا۔
 شب ہوئی پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا
کچے راستوں سے دھول ضرور اڑتی تھی لیکن ہوا میں دم نہیں گھٹتا تھا۔

زندگی سخت تھی لیکن آسمان زہریلا نہیں تھا، گرمی ہو یا سردی غریبوں کے لیے سارے موسم سخت تھے۔ برسات آج ہی کی طرح تھی۔ جھلسی ہوئی زندگی کو اپنی بوندوں سے شرابور کر کے ہرا بھرا کر دینے والی۔غالب کے دور میں دہلی میں موجود بہت سارے 'صاحبوں اور میم صاحبوں' نے انڈیا کے جن موسموں کو پہچانا تھا غالب کے خطوط میں ان موسموں کے بھر پور حوالے ہیں۔

غالب نے نئے معانی میں فطرت سے دوری کو اپنے خطوط کے ذریعے پورا کیا ہے۔غالب کے اشعار میں موسم کا تذکرہ اس لیے دلچسپ ہے کیونکہ وہ روزمرہ کی زندگی کے اس وقت کی سختی کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ غالب کے دور میں، ڈوری کی مدد سے چھت سے لٹکے ہوئے پنکھے، جو ہاتھ سے چلائے جاتے تھے، عام نہیں تھے۔ گرمی سے لڑنے کے لیے ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے ہی سب سے بڑا سہارا تھے۔


موسم گرما میں مئی اور جون کاٹنا آسان نہیں تھا۔ وہ آگ برسنے اور لو چلنے کے دن ہوا کرتے تھے۔جون سنہ 1867 میں غالب نے نواب امین الدین احمد خان کو لکھا 'شب و روز آگ برستی ہے خاک، نہ دن کو سورج نظر آتا ہے اور نہ رات کو تارے۔ زمین سے اٹھتے ہیں شعلے اور آسمان سے گرتے ہیں شرارے، چاہا تھا کہ کچھ گرمی کا حال لکھوں، عقل نے کہا دیکھ ناداں، قلم انگریزی دیاسلائی کی طرح جل اٹھے گی اور کاغذ کو جلا دیگی۔

بھائی، ہوا کی گرمی تو بڑی بلا ہے ،گاہے بگاہے جو ہوا بند ہو جاتی ہے، وہ تو اور بھی جاں گزاں ہے۔ (غالب لیٹرز، جلد 2، صفحہ 268)
وقفے وقفے سے فاقہ کشی اور قرضوں کے بوجھ کے باوجود، غالب کھاتے پیتے اعلی خاندان سے تھے اور بغیر چھت والوں کا جو حال ہوتا ہوگا اس کا تصور غالب کے خطوط سے کیا جا سکتا ہے۔ 'شب و روز' چلنے والی اس گرم ہوا کی تصدیق غالب کی ہم عصر اور ہندوستان کے گورنر لارڈ آکلینڈ کی بہن ایملی ایڈن نے بھی کی ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ 'یہاں تک کہ مقامی لوگ بھی دن میں چل پھر نہیں سکتے تھے۔'غالب نے ایک خط میں لکھا ہے 'گرمیوں میں میر احال وہ ہوجاتا جیسا زبان سے پانی پینے والے جانوروں کا'۔ خط میں وہ اپنا ہی ایک شعر لکھتے ہیں:
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :