تلخ حقیقت

جمعرات 6 مئی 2021

Hafiz Irfan Khatana

حافط عرفان کھٹانہ (ریاض ۔ سعودی عرب)

رمضان کا مہینہ برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ ہے اس مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات کے ساتھ صدقہ و خیرات بھی کی جاتی ہے غرباء مساکین کا خاص خیال رکھنے کی تلقین بھی فرمائی گئی ہے دور حاضر کی بات کی جائے تو مہنگائی اور رشوت خوری کا بازار رمضان المبارک میں گرم کیا جاتا ہے ہر چیز کا ریٹ عام دنوں سے ڈبل کر دیا جاتا ہے  صبر و تحمل اور عاجزی کا دامن چھوڑ دیا جاتا ہے ہر کوئی اپنی مرضی کا دام لگائے بیٹھ جاتا ہے  اگر بات کی جائے فروٹ فروش کی تو وہ بھی درجہ دوئم کو اول اور درجہ سوئم کو درجہ دوئم فروٹ پیش کر کے بیچ رہا ہوتا ہے ،پیٹرول کی قیمت کو گورنمنٹ ریٹ سے 2 سے 3 روپے زیادہ وصول کیا جا رہا ہے اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کیا اس پہ گورنمنٹ کے منتخب اداروں کا کوئی کنڑول نہیں ہے ؟ان سب پہ فوکس کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟گزشتہ روز پنجاب پاکستان کے شہر اقبال میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے حکومتی نمائندہ کی حثیت سے دورہ کیا حکومت کی طرف سے لگائے گے بازار کا جائزہ لیا مختلف سٹالز چیک کئے فروٹ والی ریڑھی پر کچھ ناقابل استعمال فروٹ دیکھ اے سی سونیہ صدف کے ساتھ تلخ لہجہ میں بے دریغ الفاظ کا استعمال کیا گیا جس کے بعد یہ واقعہ سوشل میڈیا کی زینت بننے کے بعد اسمبلی تک جا پہنچا اللہ کرے عام آدمی کے ساتھ والی ناانصافی کے واقعات بھی ایسے اسمبلی میں زیر بحث لائے جائیں  بلاشبہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا انداز اور لہجہ قابل افسوس ہے ان کے اس انداز اور لہجہ سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، حکومتی نمائندگان کو ہمیشہ اپنی زبان کا استعمال سوچ و فکر کے ساتھ کرنا چاہیئے کیوں کہ ہزاروں و لاکھوں کی تعداد میں ان کے چاہننے والے ہوتے ہیں جنہیں بعد میں کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر بات کی جائے ضلعی انتظامیہ کی جس میں ڈی سی اور اے سی آتے ہیں جو پورے ضلعی کے ذمہ دار ہوتے ہیں سونیہ صدف قوم کی بیٹی ہونے ساتھ عام آدمی کی خادم بھی ہیں سونیہ صدف کا کہنا تھا کہ یہاں پہ شدید گرمی اور عوام کا رش ہے، عام آدمی جو ٹھیلے پہ کھڑا ہے گاہگوں کی آمدورفت جاری ہے ان سب کے لئے گرمی نہیں ہے کیا؟ ان سب کو اپنی جان پیاری نہیں ہے ؟عوام کی صحت اور روزمرہ سہولیات کو یقینی بنایا جائے انکی صحت اور مسائل کو ذاتی مسائل سمجھا جائے سونیہ صدف صاحبہ اگر آپکو گرمی محسوس ہوتی ہے عوام میں جانے سے خوف آتا ہے تو اللہ ہی حافظ ہے؟ اکثریت میں اے سی اور ڈی سی صاحبان  اپنے اپنے ضلعوں میں ڈان بنے ہوتے ہیں ان کے ماتحت کام کرنے والے ملازمین پورا دن اپنی اور اپنے صاحب کی دیہاڑی میں مصروف رہتے ہیں جب کوئی سائل ان کے دروازے پر درخواست لے کر جاتا ہے تو یہ میٹنگ میں مصروف رہتے ہیں جب کوئی پیسے والا جاتا ہے تو ان کے دروازے آٹو میٹک کام کرنے لگ جاتے ہیں مشروبات کے ساتھ کھانے دستر خوان پر نازل ہو جاتے ہیں عام آدمی کو ڈی سی صاحب سے دستخط کروانے پڑ جائیں تو انکے ملازم کی جیب گرم کرنا پڑتی ہے ملازم ڈی سی صاحب سے میٹنگ کے دوران بھی دستخط کروا کے لے آتا ہے ورنہ ڈی سی صاحب ہمیشہ حالت میٹنگ میں ہی رہتے ہیں ،ڈی سی اور اے سی صاحب کے زیادہ تر ملازم روزانہ غریب دیہاڑی دار سے فری گھریلو اشیاء لے کر جاتے ہیں 70 فیصد سے زائد لوگوں کے پاس ریٹ لسٹ موجود نہیں ہوتی ہے جس کے پاس موجود ہے وہ بھی اپنی مرضی کا ریٹ لگا کر بیچ رہا ہے جب اس کو سوال کیا جائے کہ آپ زیادہ پیسے کیوں لے رہے ہیں  وہ کہتا ہے کہ سامان لینا ہے تو لے لیں ورنہ وقت ضائع نہ کریں کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کا تیار ہی نہیں ہے حکومت وقت بہتر سسٹم بنانے میں ناکام دیکھائی دے رہی ہے  حکومتی نمائندگان، قومی اداروں اور عام آدمی کو انفرادی اور اجتمائی طور پر اپنا فرائض سر انجام دینے کی اشد ضرورت ہے اس صورت میں پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

یہ ایک *تلخ حقیقت* ہے جس کو ہمیں ایک دن قبول کرنا پڑے گا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :