آن لائن ایجوکیشن سسٹم اور طلباء کے مسائل

جمعرات 11 جون 2020

Hafiz Mohammad Tayyab Qasmi

حافظ محمد طیب قاسمی

جو حق بات کہتا ہوں تو مزہ الفت کا جاتا ہے
جو چپ رہتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے
۔گزشتہ دنوں ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے ساتھ سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے عہدیدران کے مذاکرات یونیورسٹی میں آن لائن کلاسز کے حوالے سے ہوئے۔جس میں طلباء کو مختلف مسائل درپیش تھے۔اس سے قبل 17 مئی کو وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب کو بھی لیٹر لکھا گیا  جس میں آن لائن ایجوکیشن سسٹم اور اس سے منسلک تمام مسائل سے آگاہ کیا گیا  جن میں میں آن لائن کلاسز کا خاتمہ  یونیورسٹی کی فیس کم کرنے کا مطالبہ یا پھر لرننگ مینجمنٹ سسٹم متعارف کروایا جائے جس سے نیٹ ورک سسٹم میں دستیابی بھی ممکن  ہو اور طلباء کو سستے 4Gپیکجز بھی مہیا کیے جائیں اور فائنل ائیر کے سٹوڈنٹ جن کا سارا کام لیب میں ہوتا ہے ان سے لیب کی فیس بھی وصول کی جا رہی ہے اس طرح کے تمام مسائل کا ذکر وزیر صاحب کو پیش کئے گئے لیکن تاحال اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا ۔

(جاری ہے)


 اس کے بعد تین جون کو احتجاج  مکمل SOPs پر عمل کرتے ہوئے انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہوئے  علامتی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور ڈھائی گھنٹے کے  مذاکرات ہوئے جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نا نکل سکا جب ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے سوال کیا گیا  کہ آپ طلباء کے لئے کونسی پالیسی بنا چکے ہیں تو جواب ملا کہ پالیسی کو بننے میں 90 لگتے ہیں تو معلوم ہوا کہ پچھلے چار ماہ سے یونیورسٹی کے طلباء کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔

اگر ابھی تک یونیورسٹی کے طلباء کے لئے پالیسی نہیں بن سکی  تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مزید 90 دن درکار ہوں گے اور طلباء کا یہ سمسٹر ضائع ہو جائے گا۔۔  
طلبہ کے آن لائن ایجوکیشن کے حوالے سے مختلف مسائل  اور ان کا حل:
آن لائن کلاسز کا خاتمہ کیا جائے۔ آن لائن کلاسز فاٹا گلگت بلتستان آزاد جموں  کشمیر اندرون سندھ اور اندرون پنجاب اور بعض ایریا ایسے جہاں پر نیٹ ورک کی پرابلم ہے وہاں کے طلبہ گھنٹوں گھنٹوں پیدل سفر کرنے کے بعد کہیں جا کے 2G یا 3G کے سگنل آتے ہیں ہیں اور پھر وہیں کھڑے ہو  کر کلاس لینی پڑتی ہے۔

اس کے برعکس میل سٹوڈنٹ تو پھر بھی کوئی نہ کوئی حل نکال لیتے ہیں۔لیکن اس صورت حال میں فی میل کس طرح کلاس اٹینڈ کریں گی جن کے گھروں میں سگنل ہی 2G یا3G آ رہے ہیں نیٹ ورک پرابلم ہونے کی وجہ سے 60 سے 80 فیصد طلباء  کلاسز نہیں لے سکتے۔پھر ایچ ای سی کا کہنا ہے کہ ہم طلباء کے لئے learning management system تعارف کروا رہیے ہیں جس سے طلبا باآسانی آن لائن کلاسز لے سکتے ہیں۔

لیکن تاحال کوئی ایسا سسٹم متعارف نہ ہو سکا ۔البتہ آن لائن کلاسز کی وجہ سے  جہاں   4G کے سگنل آ رہے تھے وہاں 3G کے سگنل آنا شروع ہوگئے۔ اگر آپ ایسا کوئی سسٹم متعارف نہیں کروا سکتے تو آپ  نیورسٹی میں آئی ٹی کے  طلبہ کو یہ ذمہ داری دیں وہ آپ کو بہترین learning education system متعارف کروا کر دیں گے جس سے لنک بھی ڈاؤن نہیں ہوگا اور طلبا کو سستے پیکجز بھی ملیں گے۔

دوسری بات یہ کہ اگر آن لائن  ایجوکیشن سسٹم  چلانا ہی ہے تو ایچ ای سی کو چاہیے اساتذہ کو نیو ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہ کریں۔ جب اساتذہ ہی نیو ٹیکنالوجی زوم سکائپ ٹیم وغیرہ سے مکمل متعارف نہیں ہوں گے تو طلباء کو کیا سمجھا پائیں گے۔ دوسرا سب سے اہم مطالبہ یونیورسٹی کی فیس کے حوالے سے تھا۔پاکستان کا 80 فیصد طبقہ ڈیلی ویجز پر مشتمل ہے اور بعض یونیورسٹیوں نے طلباء کے چالان فارم بھی ان کے گھر بھجوانے شروع کر دیے ہیں۔

۔۔جس میں ٹیوشن فیس،انٹر نیٹ   فنڈ،ٹرانسپورٹ فنڈ،لائبریری فنڈ ،دیگر تمام ایسے  مراعات جن کو طلباء نے استعمال ہی نہیں کرنا طلباءسے وہ فیس بھی وصول کی جا رہی  ہےوہ یہ فیس کیوں جمع کرائیں؟؟؟؟اور جو پچھلے سمسٹر کی فیس ادا ہوچکی ہے وہ فیس کہاں گئی۔وہ فیس اس وجہ سے تو جمع نہیں کرائی گئی تھی کہ ہم گھر بیٹھ کر آن لائن  تعلیم حاصل کریں گے۔

اگر زائد فیس کا مطالبہ یونیورسٹی  ایڈمنسٹریشن سے کیا گیا ہے۔تو یہ سراسر ظلم و زیادتی ہے اسے فی الفور واپس لیا جائے۔
پاکستان کی عوام پہلے سے  ہی غربت کی چکی میں پسی ہوئی ہےاور اوپر سے لاک ڈاؤن نے بیڑہ غرق کردیا ہوا ہے اور پھر یونیورسٹی کی فیس طلباء کہاں سے دے کر سکتے ہیں۔۔ریسرچ اور فائنل ائیر کے سٹوڈنٹ جن کا سارا ورک لیب میں ہوتا ہے ان سے لیب کی فیس بھی وصول کی جا رہی ہے۔

تو حضورِ والا جو طالب علم پورا  سمسٹرلیب میں گیا ہی نہیں وہ کس چیز کی فیس آپ کو دے۔۔اس سے بھی بڑھ کر کچھ یونیورسٹییاں  لیٹ فیس کے ساتھ جرمانہ بھی وصول کر رہی ہیں۔کیا ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں؟؟؟؟تو ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ گزشتہ چار ماہ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں تو طلباء سے  کسی قسم کی فیس وصول نہ کی جائے اور فی الفور آن لائن ایجوکیشن کا خاتمہ کیا جائے۔

یا پھر ایسا learning education system متعارف کروایا جائے جس سے طلبہ کو سستے پیکجز بھی فراہم ہو اور لنک بھی ڈاؤن نا ہو ۔۔اور اگر ایسا سسٹم متعارف نہیں کروا سکتے تو پھر اس کا متبادل حل سوچا جائے۔۔تاکہ یونیورسٹی کے طلباء کا  مزید نقصان نہ ہو۔۔اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو پھر ہمارا سوال ہے اگر اس تمام تر صورتحال میں تمام مارکیٹیں بازار کھل سکتے ہیں تو تعلیمی ادارے کیوں نہیں ؟؟؟؟کیا یونیورسٹی کے طلباء Sops پر عملدرآمد کرتے ہوئے examsدینے نہیں جاسکتے؟؟؟؟کیا یونیورسٹی کے طلباء Sops پر عمل کرتے ہوئے اپنی کلاس روم میں نہیں جا سکتے ؟؟؟؟اگر مکمل sops پر عمل کرتے ہوئے تمام مارکیٹیں تمام کاروبار کھل  سکتے ہیں تو میرے خیال سے یونیورسٹی کے طلباء کو بھی اجازت دی جائے جائے کہ وہ آن لائن ایجوکیشن کی بجائے Sops پر عمل کرتے ہوئے یونیورسٹی میں کلاسز اٹینڈ کریں اور exam دیں خدارا اس کا مناسب اور متبادل حل نکالا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کا مستقبل سڑکوں پر نکل آئے اور پھر اِن کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔

۔
پاکستان کی عوام اس بات سے بخوبی واقف ہے طلباء ان  جیسے بے شمار مسائل کا شکار ہیں-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :