دینی و عصری تعلیم کا امتزاج وقت کی اھم ضرورت

جمعہ 17 جولائی 2020

Hafiz Mohammad Tayyab Qasmi

حافظ محمد طیب قاسمی

 کسی بھی ملک میں ترقی کا انحصار تعلیم پر ہوتا ہے۔تعلیم کے ذریعے معاشرے کے ذہنی جسمانی ،جذباتی اور اخلاقی طور پر تربیت کی جاتی ہے۔۔۔
تعلیم ہی وہ ہے جس کی وجہ سے معاشرے کے افراد میں سوچنے کی صلاحیت،آگے بڑھنے کا خواب،عمل کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔اور تعلیم کے ذریعے معاشرے میں کامیاب زندگی گزارنے کا سلیقہ آتا ہے ۔
پاکستان کا نظام تعلیم دیکھا جائےتو اس میں ہمیں دو طرح کے نظام تعلیم سے واسطہ پڑتا ہے ایک وہ تعلیم جو ہمیں  سکول کالج یونیورسٹی سے ملتی ہے جسے ہم عصری علوم کہتے ہیں۔

اور دوسری وہ تعلیم جو ہمیں مکتب ،مسجد اور مدارس سے ملتی ہے۔ جسے دینی علوم کہا جاتا ہے۔
لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے ایک وہ بچہ جو یونیورسٹی  سے، ایم فل، پی ایچ ڈی کی ڈگری تو لے کر آ جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ بوڑھے باپ کی میت سامنے پڑی ہوتی ہے لیکن اس پی ایچ ڈی فلاسفر پروفیسر کو اپنے باپ کا جنازہ پڑھنا تک نہیں آتا بالکل اسی طرح اگر دعائے قنوت کی بات کی جائے تو  اس میں بھی ان کی حالت یہی ہوتی ہے اس کا مطلب یہ  ہوا کہ یونیورسٹی میں ایم فل ، ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لینا یا آسان الفاظ میں کہو تو عصری علوم حاصل کرلینا اور دینی علوم کو پس پشت ڈال دینا یہ سراسر ظلم و زیادتی ہے ان والدین کے لئے جو اپنے بچوں کو پروفیسر فلاسفر، انجینئر یا ڈاکٹر تو بنا دیتے ہیں لیکن دینی علوم سے یہی بچے بالکل ناواقف ہوتے ہیں
اس کی زندہ مثال  ہمارے ایوان یا قومی اسمبلی میں بیٹھے وہ معزز اراکین ہیں جو صبح شام مسجد و مدارس کو طعنے اور گالیاں  دیتے نہیں تھکتے۔

  اگر ان  سے دعائے قنوت یا سورۃ اخلاص بھی پوچھ لی  جائے تو وہ ڈگمگا جاتے ہیں۔ جب مذہبی علوم سے کوسوں دور ایسے اراکین ہمارے پارلیمنٹ کا حصہ ہوں گے تو ان سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں یہود و نصاریٰ کے بل پیش بھی کروا لیں گے اور منظور بھی کروا لیں گے۔ لیکن ان سے یہ امید ہر گز نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایوان میں بیٹھ کے ہمارے خیر خواہی کے فیصلے قرآن و حدیث کے مطابق کریں گے۔


جب میں پاکستانی تعلیم کا دوسرا رخ دیکھتا ہوں  جسے مذہبی علوم یا دینی علوم کہا جاتا ہے
ایک مکتب اور مدرسے سے پڑھا ہوا طالب علم جب اپنی ڈگری کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتا ہے وہ ایک مستند عالم دین تو بن جاتا ہے اس کے نام کے ساتھ حضرت مولانا کا لقب بھی لگ جاتا ہے لیکن لمحہ فکریہ یہ  ہے کہ جب یہ مولانا صاحب کسی  کے دفتر میں جاتے ہیں تو وہاں  دروازے پر pull اور push لکھا ہوتا ہے لیکن حضرت مولانا صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ pull کا مطلب کیا ہے اور push کا مطلب کیا ہے ۔

۔۔
جب مسلمان  عصری اور دینی علوم کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے رہے تو انہیں مسلمانوں میں سے جابر بن حیان،ابن الہثیم،البیرونی جیسے بے شمار مسلمان سائنسدان ابھرتے ہوئے نظر آتے ہیں
اور جب مسلمانوں نے نظام تعلیم کو تقسیم کردیا تو پھر ایوان میں ہمیں  خواجہ آصف یا فواد چوہدری جیسے دین دشمن  لوگ نظر آتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ہماری حکومت کی ناقص پالیسیاں تعلیمی پسماندگی کی اصل وجہ ہے ایک اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں  خواندگی کی شرح بہت کم ہےپاکستان میں شرح خواندگی انڈونیشیا، ملیشیا،سری لنکاہ،ترکی  ایران جیسے ممالک سے بھی کم ہے۔گویا ہم آزادی سے لے کر آج تک قوم کو صحیح معنوں میں نظام تعلیم دے ہی نہیں سکے۔
ایسا نظام تعلیم جس سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔


اس کی بنسبت وفاق المدارس العربیہ پاکستان وہ دینی علوم کا واحد  ادارہ ہے جس میں پورے ملک پاکستان میں ایک ہی  وقت میں پرچہ شروع ہوتا  ہے اور ایک ہی وقت میں ختم ہوتا ہے۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں  ہے۔ اس پورے نظم کو چلانا سنبھالنا اور پرچوں کو ترتیب دینا اور واپسی پرچوں کی کلیکشن کرکے ایک ہی وقت میں جمع کرانا یہ سارا کام وفاق المدارس العربیہ پاکستان کر رہا ہے
مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں  مدارس دینیہ کے سالانہ امتحانات جو رمضان المبارک سے پہلے انعقاد پذیر ہونے تھے جو بوجہ لاک ڈاؤن کرونا وائرس سے متاثر ہوئے وہ حال ہی میں ہوئے جن میں مکمل sops پر عمل درآمد بھی کیا  گیا
*تعارف وفاق المدارس العربیہ پاکستان*
برصغیر میں دینی روایات برقرار رکھنے اور اسلامی اقتدار  کی سربلندی کے لئے علماء نے جو کردار ادا کیا ہے۔

وہ تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرے کی بقا اور اس کے قیام کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اور اسلامی تعلیمات پر ہی اسلامی معاشرے کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔ دینی مدارس کا بنیادی مقصد اس کے علاوہ کیا ہوگا اسلامی تعلیمات کے ماہرین  قرآن و حدیث پر دسترس رکھنے والے علمائے کرام پیدا کرنا جو آگے مسلمان معاشرے کا اسلام سے ناطہ جوڑے اور مسلمانوں میں اسلام کی بنیادی اور ضروری تعلیم عام کرنے کا فریضہ سر انجام دیں۔

مشیت خداوندی نے برصغیر کے اہل علم کے لئے یہ سعادت مقرر کی انہوں نے اسلام کی حفاظت کے لیے دیگر  عالم اسلام کے طریقے سے ہٹ کر مدارس دینیہ کا بےنظیر کارنامہ سرانجام دیا مدارس کی عظیم طاقت مختلف حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔قیام پاکستان کے بعد اکابر علمائے دیوبند نے مسلمانان پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے مملکت خداداد پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ اور استحکام کے لیے ایک پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت محسوس کی
چنانچہ اس عظیم مقصد کے لیے اکابر علمائے دیوبند کا اجلاس 22 مارچ 1957 کو جامعہ خیر المدارس ملتان میں منعقد ہوا جس کی سرپرستی استاذ العلماء حضرت مولانا خیر محمد جالندھری نور اللہ مرقدہ فرما رہے تھے آخر 19 اکتوبر 1959 میں باقاعدہ طور پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نام سے ایک ہمہ گیر تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور اسی اجلاس میں تین سال کے لیے  عہدیداران کا انتخاب کیا گیا جن میں صدر وفاق استاذ العلماء حضرت مولانا شمس الحق افغانی نوراللہ مرقدہٗ اور صدر اول استاذ العلماء حضرت مولانا خیر محمد جالندھری نور اللہ وبرکاتہ حضرت مولانا یوسف بنوری نوراللہ مرقدہٗ فاتح قادیانیت حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ
کی خدمات حاصل کی گئیں مالک ذوالجلال نے نے وفاق کا عظیم کام ان مقبول ہستیوں سے لیا۔

ملک گیر سطح پر ایسی مقبول تنظیم کی مثال دیگر اسلامی ممالک میں نہیں ملتی
اس وقت بھی وفاق المدارس العربیہ پاکستان حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب دامت فیوضہم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی حضرت مولانا انوار الحق حقانی دامت فیوضہم اور حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب ان حضرات کی سرپرستی میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

یہ قوم اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی جب تک یہ آنے والی نئی نسل کو دونوں  علوم سے روشناس نہ کرائیں۔۔
ایک طرف ریاست تو یہ چاہتی ہے  کہ مساجد اور مدارس والے بھی اسکول کی تعلیم کا آغاز کر لیں۔لیکن دوسری طرف یہ سننا بھی برداشت نہیں کرتی  کہ اسکول کالج اور  یونیورسٹی میں پڑھنے والی نسل کو قرآن کریم اور حدیث نبوی کے زیور سے آراستہ کرایا جائے۔


اگر مذہبی علوم کو دیکھا جائے تو آج بھی کچھ مدارس دینیہ ایسے ہیں جو قرآن و حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی روشناس کروا رہے ہیں جن میں ملک  بھر میں جامعۃ الرشید کراچی
جامعہ بیت السلام کراچی ، تلہ گنگ
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ
جامعہ اسلامیہ بہارہ کہو
دارالعلوم تدریس القرآن چکوال۔
آس اکیڈمی۔
جامعہ منظور الاسلامیہ لاہور۔
دیگر ایسے بے شمار ادارے عصری علوم کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کے زیور سے بھی آراستہ فرما رہے ہیں
حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ مدارس پر پابندیاں نہ لگائے کیوں کہ یہی مدارس ہی وہ جگہیں ہیں جہاں  غریب طلباء کی کفالت سے لے کر کھانے پینے کے ساتھ ساتھ تعلیم سے روشناس کروایا جاتا ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :