حالیہ مہنگائی اور حکومتی اقدامات

پیر 8 نومبر 2021

Hafiz Mohammad Tayyab Qasmi

حافظ محمد طیب قاسمی

سال 2021 اپنے آخری مراحل میں ہے یہ سال کیسا رہا مہنگائی نے اپنے پر کس طرح پھیلائے ۔پاکستان کا GDP گروتھ ریٹ کیسا رہا پاکستان نے کتنی ترقی کی منازل طے کیی۔ پاکستان میں کتنے بجلی کے پروجیکٹس لگے پاکستان میں کتنے گیس کے پروجیکٹس لگے ایا غریب عوام کے گھر کا چولہا جلا یا بجھا۔ کرونا کا جن قابو میں رہا یا نہیں ۔ یہ سب کچھ جاننا چاہتی ہے پاکستان کی عوام لیکن اس کا جواب آخر دے گا کون کرونا کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو شاید ہی پورے پاکستان میں اس سے کوئی شخص متاثر نہ ہوا ہو بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پوری دنیا میں شاید ہی کوئی شخص ہو جو اس کی زد میں نہ آیا ہوں کرونا کی وجہ سے معاشی نظام کافی زیادہ حد تک متاثر ہوا کرونا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ہر اس ملک پر حملہ کیا چاہے وہ ترقی پذیر تھا یا ترقی یافتہ تمام ممالک ہی اس کی زد میں ا گئے بعض ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ترقی و تنزلی کا دارومدار ڈالر کے اوپر ہے لیکن شاید یہ غلط ہے اس کے علاوہ بھی کافی عوامل ایسے ہیں جو ہمیں معاشی بحران سے نکالنے اور ہمارا معاشی نظام بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی گزشتہ روز ڈالر 168 روپے تک جا پہنچا ایکسچینج کمپنیز آف ایسوسی ایشن ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ درآمد کنندگان کی جانب سے ڈالر کی خریداری بڑھنے اور افغانستان میں ڈالر کی سمگلنگ کی وجہ سے مقامی سطح پر ڈالر کا ریٹ بڑھا۔مزید ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہوگئی ہے بلیک مارکیٹ میں ڈالر اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں تین روپے اوپر فروخت ہو رہا ہے اس کو روکنے کا ایک ہی حل ہے کہ غیر قانونی سمگلنگ کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔

ڈالر کی قیمت میں بے ہنگم اتارچڑھاؤ کی وجہ سے آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ رسد کی بنیاد کے مطابق سٹیٹ بینک ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا لیکن اس سال میں جو ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا اس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی موجودہ حالات میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر جہاں غریب عوام دو وقت کی روٹی سے محروم ہوئی وہیں یہی پاکستان کی غریب عوام بجلی اور گیس سے بھی محروم ہوگئی بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے غریب کو معاشی طور کافی ڈسٹرب کیا صرف یہاں تک ہی نہیں بلکہ آٹا چاول گھی چینی سبزیاں گوشت میں بھی 101% فیصد اضافہ ہوا . ایک طرف کرونا نے پاکستانی معیشت کو کافی حد تک نقصان پہنچایا تو دوسری طرف اشیائے خورد نوش کو ناجائز طریقے سے ذخیرہ اندوز کر کے مصنوعی بحران پیدا کیا گیا۔

پاکستان میں 40 فیصد مرد سے زیادہ لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں امیر امیر سے امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور غریب غریب سے غریب تر ہوتا چلا جارہا ہے اور ہماری حکومت مہنگائی ختم کرنے کے لیے ماسوائے تقریروں کی اور کچھ نہیں کر رہی۔ جب کرونا وائرس اپنے پنجے مکمل طور پر گاڑ چکا تھا تھا سارے جہاں میں زندگی مفلوج ہو چکا تھا تو اس وقت جدید ٹیکنالوجی نے اہم کردار ادا کیا جس میں فری لانسنگ کی گروتھ میں دنیا بھر میں پاکستان چوتھے نمبر پر رہا ہے نمبر پر امریکہ دوسرے پر برطانیہ تیسرے پر برازیل اور چوتھے پر پاکستان یعنی پاکستان ایشیائی ممالک میں پہلے نمبر پر رہا۔

فری لانسنگ سے پاکستان میں سالانہ ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ کمایا یہ کمانے والے اکثر لوگوں کی عمریں 25 سے 30 سال ہیں ۔اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ بچوں کو ٹیکنالوجی کے استعمال کی طرف رجحان بڑا اور فری لانسنگ کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔ دور حاضر میں اگر پاکستان کا معاشی نظام ڈسکس کیا جائے اور آئی ایم ایف کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ نا انصافی ہوگی۔

ہماری موجودہ حکومت مکمل طور پر آئی ایم ایف کے تابع ہوچکی ہے اور آئی ایم ایف جیسے کہتا ہے ویسے ہی ہماری پاکستانی حکومت اپنا کردار ادا کرتی ہے جو ریٹ وہ دیتے ہیں وہی عوام پر مسلط کر دیے جاتے ہیں ۔جس کا نقصان یہ ہوا کہ مہنگائی بڑھی اور آمدن میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا لیکن اخراجات میں اضافہ ہو گیا جس سے ایک گھر کے نظام کو چلانا ایک غریب شخص کے لئے مشکل ہو گیا۔

معیشت کو بہتر کرنے میں برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے جس سے کسی حد تک معاشی نظام کو مضبوط کیا جا سکتا ہے ۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فل فور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان کا دوسرے ممالک کے ساتھ چلنا مشکل ہو جائے گا اور مزید قرضے لینا بھی دشوار ہوگا وہ ایف اے ٹی ایف سے ملنے والے ریلیف بھی حاصل نہ ہو سکیں گے حال ہی میں وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے احساس پروگرام کو ڈیٹا کلیکشن پر بہت داد دی اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کے احساس پروگرام نے غریب خاندانوں کی کفالت میں بہترین کردار ادا کیا اگر یہ احساس پروگرام پروجیکٹ مستقل طور پر چلتا رہا تو کسی حد تک غریب خاندانوں کی مدد میں بہترین کارکردگی دکھائی جا سکتی ہے لیکن وقت حال اس کا ایسا کوئی چانس نظر نہیں آ رہا اگر صحت کارڈ کی بات کی جائے تو ایک غریب خاندان کے لیے یہ سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ گھر میں چارپائی پر پڑے ہوئے مریض کو کس ہاسپٹل میں لے کے جایا جائے کیوں کہ جہاں کہیں بھی اور جس ہاسپٹل میں بھی لے کر جایا جائے گا تو وہاں پھر کیش کا مسئلہ درپیش ہو گا تو یہ آج کی تقریر میں خوش آئند بات تھی کہ آئندہ دو سے چار ماہ تک اسلام آباد اور پنجاب کے خاندانوں میں صحت کارڈ تقسیم کیا جائے گا۔

صحت کے حوالے سے غرباء کا یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا اس کے ساتھ ساتھ چاول آٹا چینی گھی بھی مزید مہنگا کرنے کا عندیہ دے دیا گیا لیکن اس میں ایک پراجیکٹ لانچ کیا گیا جس میں دال آٹا اور گھی 30 فیصد سبسڈی کے طور پر گورنمنٹ دے گی حکومت کو چاہیے کہ صحت کارڈ کے ساتھ ساتھ راشن کارڈ بھی دیے جائیں تاکہ راشن کارڈ ملنے سے غریبوں کا دو وقت کا چولہا جلایا جا سکے ظاہری بات ہے اگر انسان کو خوراک ملتی رہے تو انسان کا جسم صحت مند و توانا رہتا ہے اگر اس جسم کو خوراک نہیں ملے گی تو یہ بیمار ہونا شروع ہو جائے گا ۔

اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ خان صاحب نے پہلی صحت کارڈ کا اجراء کیوں کیا؟ خیر اگر اس کارڈ کا اجراء ہو گیا تو مستقبل میں اس کے بہت سے فوائد نظر آ رہے ہیں خان صاحب نے پٹرول مہنگا کرنے کا عندیہ بھی دیا اور مکمل تفصیلات کے ساتھ باقی ممالک کی قیمتوں سے بھی آگاہ کیا خان صاحب کو چاہیے کہ وہ یہ بھی بتائیں برطانیہ و یورپی یونین میں پیٹرول کی پرائس ایک لیٹر ایک پاؤنڈ 35 کا ہے جو پاکستانی روپیوں میں تقریبا 300 روپے بنتا ہے یہاں یہ بات کرنا بھی لازم و ملزوم تھا کہ وہاں ایک گھنٹہ کام کرنے کی اجرت تقریبا آٹھ پاونڈ ہیں یوں اگر دن میں آٹھ گھنٹے کام کیا جائے تو 57 پاونڈ کماۓ جا سکتے ہیں جس سے ہم 43 لیٹر پیٹرول خرید سکتے ہیں اور یہ پاکستانی روپیوں میں 13936 بنتے ہیں جب کہ پاکستان میں ایک دن کی اجرت 800 روپے ہے ہے جس سے تقریبا 5 یا 6 لیٹر پیٹرول ہیں خریدا جا سکتا ہے خان صاحب اگر اس طرح اشیاء کی قیمتوں کا موازنہ کرنا ہے ہے تم کو مکمل طور پر کیا جائے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :