قومی پستی اور موجودہ تعلیمی نظام

منگل 6 اپریل 2021

Hafiz Mohammad Tayyab Qasmi

حافظ محمد طیب قاسمی

پورے ملک کا تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ چھوٹی کلاسوں سے لے کر بڑی کلاس تک سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ دو ہزار سال سے پہلے ملک کا تعلیمی نظام کامیاب تھا تو بے جا نہ ہوگا اب سے کچھ عرصہ قبل علم ہوا کرتا تھا کہ اساتذہ لیکچر کتاب سے تیار کرکے آتے ہیں اور طلبہ بھی اس لیکچر کو کتاب سے تیار کرتے ہیں جو تبدیلی آتی گئی معلومات میں حد درجہ اضافہ ہوتا گیا جہاں نئی ٹیکنالوجی کے فوائد اساتذہ نے بھرپور حاصل کئے وہاں طلباء نے بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

دورحاضر میں اساتذہ بھی گوگل پہ منحصر ہیں طلباء بھی اساءیمنٹ کے لیے گوگل کا استعمال کر رہے ہیں  بہت ہی کم ایسے ٹیچرز ہیں جو کتاب کو پڑھنے کی اور سرچ کرنے کی جسارت حاصل کرتے ہیں ایم سی کیوز آنے سے پڑھائی کو کو ناپنا اور ہی آسان ہوگیا اندازے سے بھی کام باآسانی چل جاتا ہے تعلیم کا بیڑا غرق ہونے کی ایک بڑی وجہ مار نہیں پیار بھی ہے اساتذہ اور طلبا کے درمیان بےتکلفی نے مزید تعلیم کا بیڑا غرق کردیا کچھ عرصہ قبل کورسز کروائے جاتے تھے جس میں پڑھنے کے طریقے پر ہی بحث مباحثہ ہوتا تھا اب تو ملازمت کے حصول کے لیے یہ شرط بھی ختم کر دی گئی ہے کالجوں اور یونیورسٹی میں پڑھائی کا معیار صرف اور صرف ڈگری کے حصول تک رہ گیا ہے پہلے وقتوں کے اساتذہ اور آج کے اساتذہ میں زمین و آسمان کا فرق رہ گیا آج بھی ان  اساتذہ کو یاد کیا جاتا ہے جو لیکچر تیار کرنے کے بعد لیکچر دیا کرتے تھے مگر  موجودہ دور میں سمسٹر کے خاتمے کے ساتھ ہی اساتذہ کو بھلا دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

جو اساتذہ خود کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور بغیر لیکچر تیار کیے کلاس روم میں آ جاتے ہیں انہیں جب طلبا کے تلخ سوالات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ الجھنے  لگتے ہیں
 تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
دور حاضر میں ہر کوئی ڈگری کے حصول کے لیے تعلیم حاصل کر رہا ہے المیہ تو یہ ہے کہ اگر یہ کاغذ کا ٹکڑا جسے ہم ڈگری کہتے ہیں اگر ہٹا دیا جائے تو کوئی بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے رضامند نہ ہو یہ بات بجا ہے کہ کچھ سیکھنے کے بعد آپ کے پاس ایک ایسا ثبوت ہونا ضروری ہے جس سے واضح ہوسکے آپ نے ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

اس سے بھی بہتر تو یہ ہےہم اپنے رویہ اور اخلاقیات سے یہ واضح کریں کہ تعلیمی اسناد   کچھ اہمیت کے حامل نہیں بلکہ اصل اہمیت تو اخلاقیات اور رویے کی ہے۔
 اگر آپ کی تعلیم آپ کو بڑوں کی عزت چھوٹوں پر شفقت کرنا نہیں سکھاتی تو آپ ہزاروں ڈگریاں لے لیں پھر آپ کو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہمارے تعلیمی نظام کا المیہ تو یہ ہے کہ یہ روٹی کمانا تو سکھاتا ہے مگر زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں سکھاتا
علم معاشرے کو امن استحکام اور یکجہتی عطا کرتا ہے جہالت معاشرے کو فکری انتشار کرپشن اور محرومی دیتی ہے جس معاشرے کے تعلیمی ادارے اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیتے ہیں ان معاشروں میں اچھے اور اہل افراد کی کمی نہیں ہوتی جب سے ہم نے نظام تعلیم کو نظر انداز کیا تب سے ترقی اور کامیابی ہم سے روٹھ گئی جب تعلیم کا مقصد بچے کو صرف نوکری ہی سکھایا جائے پھر رائج الوقت تعلیمی نظام سے نکلنے کے لیے طلبہ میں سے ایک ایسا اچھا معلم و مربی لیڈر رہنما قائد تو درکنار پھر  مغربی معاشرے سے مرغوب ہو  کر نوکر ہی پیدا ہوں گے ایسے معاشرے کی تباہی کے لیے یہی کافی ہے کہ اسے مغرب کے نظام تعلیم  اور نظام زندگی کے سہانے خواب دکھا کر اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے سے دور کر دیئے جائے تمام مسلم ممالک کی قیادت نے اپنی نوجوان نسل کو بے راہ روی کی راہ پر لگا دیا ہے آج کل کے نوجوان کی مثال اس جانور کے ریوڑ کی طرح ہے کہ جس طرف ان کا جی چاہتا ہے وہ نکل پڑتے ہیں ہمارے ملک کے تعلیمی اساتذہ کی تقرری سفارش رشوت دیکھ کر کی جاتی ہے ہمارے ملک میں جب اساتذہ کی تقرری ہوتی ہے تو فقط اس بات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ہم جس کو استاد بننے کا اہل سمجھ رہے ہیں کیا وہ اس ملک کی فصل تیار کرنے کے اہل ہیں یا نہیں اس فصل پر کام کرنے والے اساتذہ جتنے اچھے اور محنتیی ہوں گے فصل اتنا اچھا پھل دے گی اگر ایسا نہ ہوا تو اس فصل کا دیوالیہ نکل جائے گا
نظام تعلیم کی تباہ کاریاں
تعلیم کے نام پر دکان داری
تعلیمی بگاڑ اور ہمارا امتحانی نظام
اساتذہ کا تربیت یافتہ نہ ہونا
تعلیمی نظام میں تحقیق کا فقدان
اساتذہ اور طلباء میں ایمانداری کا فقدان
تعلیمی نظام میں غیر اخلاقی طریقہ کار
طلباء وطالبات میں نشے کا استعمال
انٹرنیٹ کا آزادانہ استعمال
تعلیمی اداروں میں اسلامی تربیت کا فقدان
ہمارے تعلیمی نظام میں مغرب کی بے جا مداخلت
دینی مدارس کے طلبہ پر بےجا دہشت گردی کے الزام لگانا
آج کے اس ترقی پذیر دور میں کسی بھی علم کا حاصل کرنا برا نہیں ہاں البتہ اس کا بے محل استعمال کرنا برا ہے۔

انگریزی تعلیم کو برا نہیں کہا جاسکتا ہاں البتہ انگریزی تہذیب کو برا ضرور کہا جائے گا یہ بات صدیوں سے واضح ہے کہ کسی بھی قوم کا عروج و زوال نشیب و فراز تعلیمی و تہذیبی بلندی و پستی میں مضمر ہے وہ قومیں جنھوں نے علم و ادب میں ایک نام کمایا آج بھی ان کے ڈنکے بج رہے ہیں۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جب تک مسلمانوں نے عصری علوم کے ساتھ ساتھ مذہبی علوم کا دامن تھامے رکھا تب تک یہ مسلمان  پورے برصغیر پر  حکومت کرنے والے تھے۔


اور جب ان کے اندر تعلیمی شعور مفقود ہوگیا تو یہی قومی پستی کا شکار ہوگئی
یہ بات خوش آئند ہے کہ آج کل مدارس بھی دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی دے رہے ہیں اہل مدارس جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں
کتاب اللہ و حدیث اور سائنس و ٹیکنالوجی میں کوئی ٹکراؤ تو نہیں اگر بعض جگہ پر کچھ کمی ہے تو یہ ہماری نا موافقت ہے اور  یہ ہماری سائنس و ٹیکنالوجی کی کم عقلی ہے
آج سے اگر کچھ وقت قبل نظر دوڑائی جائے صحابہ اور ان کی نسلوں نے بھی حالات اور وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علوم قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی دولت سے بھی اپنے دامن تہی کو بھرنے کی سعی و بلیغ کی۔


جب اسلام کی نشرواشاعت کیلئے صحابہ کرام کو دوسری زبانیں سیکھنے کا موقع ملا تو انہوں نے بلا جھجک ان کو سیکھا اور اس میں کچھ بھی قیل قال نہ کیا
آج جب آئے دن اسلام مخالف طاقتوں کی طرف سے اسلام مساجد اور مدارس پر حملے کیے جارہے ہیں ایسے وقت میں ایسے اداروں کی اشد ضرورت ہے جو اپنے طلباء  کو مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آشنا کر رہے ہیں ایسے نازک وقت میں ایسے افراد کا ہونا بہت ہی ضروری ہے جو ان کی زبان میں ہی ان کو جواب دے سکے۔

ان کے ناپاک عزائم سے قوم کو بروقت با خبر کر سکے۔ان جیسے بے شمار  مسائل کے حل کے لیے پہلے سے تیار رہیں
دین اور دنیا کی کوئی شے بری نہیں بلکہ اس کا استعمال اور استعمال کرنے والا برا ہوتا ہے۔دین اور سائنس و ٹیکنالوجی میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہاں البتہ دونوں کا ساتھ ساتھ چلنا انسان کی بقاء اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :