
ذاتی اناء کی جنگ مگر قومی مفاد میں!
ہفتہ 20 ستمبر 2014

حافظ محمد فیصل خالد
(جاری ہے)
اس کشمکش میں حالات میں حالات دن بدن مزید تنزلی کی طرف گامزن ہیں ۔
مگراس سارے عمل میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کھلم کھلی دہشتگردی کے بعد بھی یہ لوگ پر امن ہونے کا دعوے کئے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت ان تمام غیر قانونی کاروائیوں پر مکمل طور پربے بس نظر آرہی ہے۔اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی حکومت ایسے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے کہ جیسے اقتدار ملکی سلامتی اور سے بھی زیادہ اہم ہو۔عالمی برادری میں پاکستان کے چہرے کو اس طرح مسخ کیا گیا کہ ہر سطح پر رسوائی ہوئی۔مگر حکومت اس ساری صورتِ حال کو قابو کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔نہ ریاستی اداروں کے تقدس کا احترام کیا گیا تو نہ ہی قومی تشخص اور قومی و قارکی کسی خاطر میں لایا گیا۔دوسری جانب ذاتی اناء کی اس جنگ میں آڈی پیز اور سیلاب زدگان کو اس طرح نظر انداز کیا گیا کہ بے حسی کی انتہاء کر دی۔
ایک طراف عمران خان صاحب ہیں جنہوں نے وزیرِاعظم کے استعفے کو اپنی اناء کا مسلہ بنا رکھا ہے اور خان صاحب کی اسی اناء موجہ سے عوامی مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر خان صاحب کو عوامی مسائل سے نہیں بلکہ انکی انااء سے غرض ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے خان صاحب کی ذاتی اناء عوامی مسائل سے زیادہ اہم ہے اورشاید یہی وجہ ہے کہ خان صاحب ابھی تک پاکستان کے استحقاق اورعوامی مسائل پرذاتی اناء کو ترجیح دےئے ہوئے ہیں۔جبکہ دوسری جانب قادری صاحب اینڈ کمپنی اپنے بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں۔تیسری جانب حکومت اور اسکی اتحادی جماعتیں ہر حال میں حکومت کا ساتھ دینے کیلئے پرعزم دکھائی دے رہی ہیں۔ الغرض پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتیں مختلف گروہوں میں بٹ گئیں۔تحریک انصاف ہویا پاکستان عوامی تحریک سب کا مقصدعوام کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پنے مفادا دکی جنگ لڑ نا ہے۔
آئی ڈی پیز ہوں یا سیلاب زدگانان متاثرہ افراد کے بارے میں سوچنا اس مفاد پرست ٹولے کی ترجیحات میں کبھی نہیں رہا۔ان متاثرین کے ساتھ کیا بیت رہی ہے اس کا اندازہ نہ خان صاحب کو ہے اور نہ ہی کینیڈین غلاموں کوکیونکہ کم از کم ان لوگوں اپنا وقار بحال ہے۔ ہاں اگر مر رہا ہے تو غریب کا بچہ ،اگر اٹ رہا ہے توغریب کا گھر مگرمجال ہے کہ ان مخلص سیاست دانوں نے اس کے بارے میں بھی کچھ عملی اقدامات کئے ہوں، انہیں اگر ہمدردی ہے تو اپنے ذاتی مفاداد سے،ا نہیں اگر کوئی ہمدردی ہے تو وزیر اعظم سے ستعفی لینے سے ہے۔بے ضمیریت کی انتہاء ہے کہ ایک طرف تو ریاست کو کھلم کھلا چیلنج کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب محب وطن ہونے کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ لوگ عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں یا پھر انکا اپنا ذہنی توازن خراب ہو چکا ہے۔یہ لوگ ذہنی طور پر اس حد تک مفلوج ہو چکے ہیں کہ جب ان کے کارکنان کسی گیر قانونی فعل کے مرتکب ہوتے ہیں تو اسکی مزمت کی بجائے انکا قانونی جواز بنا کر اسکی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور جب کسی غیر قانونی حرکت پر قانون حرکت میں ٓاتا ہے تو اسکو غیر قانونی اور غیر آئینی فعل سے تعبیر کر مظلومیت کا رونا رویا جاتا ہے۔
نہ جانے یہ کیسی حب الوطنی ہے جس میں ذاتی اناء کو ملک و ملت اور عوامی مسائل پر ترجیح دی جا رہی ہے۔یہ کیسا نیا پاکستان ہے جسمیں ااخلاقی اقدار نامی کوئی چیز ہی نہیں۔یہ کونسی جمہوریت ہے جسمیں تمام آئینی اداروں کو کھلے الفا ظ میں ڈکٹیشن دی جاتی ہیں ؟۔یہ کہاں کا جمہوری نظام ہے کہ جس میں فردِ واحد کی رائے کو حتمی فیصلہ تصور کیا جاتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ محمد فیصل خالد کے کالمز
-
حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ریاستِ مدینہ سے سانحہ ساہیوال تک
پیر 21 جنوری 2019
-
مذہب کارڈ!
پیر 19 نومبر 2018
-
اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
بدھ 27 دسمبر 2017
-
وزیرِ اعظم کا استعفی
اتوار 28 مئی 2017
-
اِک زرداری سب پہ بھاری!
پیر 26 دسمبر 2016
-
آخر مذہبی جماعتیں کیوں نہیں؟
منگل 1 نومبر 2016
-
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016
حافظ محمد فیصل خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.