295/C میں مجوزہ ترامیم اور ان کے ممکنہ نتائج!

منگل 2 جون 2015

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

پاکستان کے قانون کے مطابق ملکِ پاکستان میں کوئی بھی فردانبیاء میں سے کسی کی بھی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے تو اایسے فرد یا گروہ کے خلاف 295/C کے تحت کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔اس قانونی عمل میں ملزم کے خلاف ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے اجراء کے بعد تحقیقات کر کے حاصل شدہ نتائج متعلقہ حاکم کے سامنے پیش کرکے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جاتا ہے۔


مگر بد قسمتی یہ کہ ماضی میں اس قانون پر نہ تو مکمل طور پر عمل کیا گیا اور نہ ہی اس قانون مکمل طور پر عملدر ٓامد کروایا گیا۔ قانون شکنی کے اس سارے عمل کی وجہ سے شدت پسندی دن بدن زور پکڑتی گئی اور نتیجتاََ آج ہم ایسے حالات سے دو چار ہیں کہ جن میں ہمیں غیر معمولی اقدامات کے ذریعے ایسے معاملات ( جو کہ ہماری اپنی ہی قانون شکنیوں کے نتائج ہیں)پر قابو پانے کیلئے سر توڑ کوششیں کرنی پڑ رہی ہیں۔

(جاری ہے)


اب مسلہ یہ ہے کہ حکومتِ حال اس قانون میں ترامیم کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مجوزہ تبدیلی کے مطابق آئندہ توہینِ رسالت کے مرتکب شخص کو خالصتاََ واقانون نافظ کرنے والے ادارے ہی ڈیل کریں گے اور کسی غیر سرکاری گرہو یا ادارے کو اس قانون کو ہاتھ میں لینے پر کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی۔کیونکہ چند حلقوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ بعض حلقے اس قسم کے الزامات کی سختی سے تردید کر رتے ہہوئے اس بات کے دعویدار ہیں کہ اس قانون کی خلاف ورزی سب سے پہلے قانون کے رکھوالے ہی کرتے ہیں۔


اب اس ساری صورتِ حال میں ہم شاید اس حقیقت کو بھول رہے ہیں کہ اس قانون پر مکمل طور پر عمل در آمد نہ ہونا ہی در اصل ان مسائل میں بڑھاؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ مثال کے طور پر تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جن میں سائل قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے توہینِ رسالت کے مرتکب شخص کے خلاف اپنی شکایت متعلقہ حکام کے پاس لیکر گیا مگر اس کی شکایت پر قانون کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔

اور انصاف کی عدم فراہمی نے انتشار کے پھیلنے میں اہم کر دار ادا کیااور ایسے افراد (جنکو انکے بنیادی عقائد سے متعلق انصاف نہیں ملا) کو قانون شکنی پر مجبور کیا ۔اور یہی وہ بنیادی جس کے نتیجے میں یہ مسائل سنگین صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں۔اور بڑے بہترین انداز میں پھلی پھولی جسکو آج ہم سب بیٹھ کر رورہے ہیں۔
اب سا ری صورتِ حال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا پہلے ہمارے مسائل کم ہیں کہ جو ہم ایک نئے مسلے کو ہوا دینے چل پڑے ہیں؟ کیاحکومت کی جانب سے کی جانے والی یہ مجوزہ تبدیلی کار آمد ثابت ہو سکے گی؟ کیا توناموسِ رسالت کے قوانین میں ترمیم کرنے کے بعد اس سے عقیدے کی حد تک محبت کرنے والوں کو منتشر ہونے سے روکا جاسکے گا ؟اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس مجوزہ تبدیلی کے بعد پر تشدد د واقعات میں کمی آئے گی؟
یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں جن پر کسی بھی تبدیلی سے پہلے غور و فکر کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق براہ راست کڑوڑوں لوگوں کے بنیادی عقائد سے ہے۔

اور عین ممکن ہے کہ ایسے کسی بھی فعل کے نتیجے میں مذہبی قوتیں منتشر ہو جائیں ۔ اور اگر خدانخواستہ حالات اس نہج پر چل پڑے تو تو پھر حالات بہتر ہونے کی بجائے دن بدن بد تر ہوتے چلے جائیں گے۔
لہذا حکومت اور متعلقہ ادارے مہر بانی فر ماکر اس معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے کوئی ایسی حکمتِ عملی وضع کریں جوانتشار اور لا قانونیت کے خاتمے کا باعث بنے نہ کہ کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی کا۔کیونکہ اس قوت وطنِ عزیز کسی بھی قسم کی کسی بھی مہم کامتحمل نہیں ہوسکتا۔اور اگر ہم نے اس معاملے پر سنجیدگی سے نہ سوچا تو پھرہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ا یسے اقدامات ملکی مسائل میں اضافے کا باعث بنیں گے جن کے نتائج کسی صورت بھی مفید ثابت نہ ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :