القدس کے محافظ (دوسری قسط)

ہفتہ 23 مئی 2020

Hafiz Mati Ur Rahman Jamali

حافظ مطیع الرحمان جمالی

پچھلے کالم میں ہم نے اسی موضع پہ بات کی جو اردو پوائنٹ پہ ہی منگل 19 مئی کو شائع ہوچکا۔۔۔جس میں ہم نے نورالدین زنگی کا دیکھا خواب۔۔۔ اسکا بیت المقدس کیلئے راہ ہموار کرنا۔۔۔ پھر سلطان صلاح الدین کا صلیبیوں کو عبرت ناک شکست دے کر بیت المقدس کو فتح کرنا۔۔۔ سلطان کی وفات کے بعد سلطنت ایوبیہ کا کمزور ہونا اور زوال کی طرف کا سفر۔اور پھر سلطان صلاح الدین کی وفات کے چند ہی سالوں بعد ارطغرل غازی کی پیدائش اور قدرت کا انہے ان سرزمینوں پہ ہجرت کروانا۔

یہ سارا نقشہ میں پچھلے کالم میں پیش کر چکا۔۔۔
اس سے اب آگے چلتے ہیں۔۔۔
ایک طرف سلطنت ایوبیہ اپنے زوال، کمزوری کی وجہ سے خاتمے کی طرف اور دوسری طرف سلجوق سلطنت بھی اسی قسم کی کیفیت میں تھی،یعنی مسلم اپنے اندرونی معاملات میں ہی پھنسے ہوئے اور کفر بیت المقدس میں اپنی ناکامی کو بھول نا پارہا تھا۔

(جاری ہے)

ہر گزرتے دن نئی سازشیں تیار کرتا اور مسلمانوں سے اسکا بدلا لینے کی کوشش میں لگا رہتا۔

مگر اسکی سب سے بڑی رکاوٹ مسلم دنیا میں ابھی اتنی غیرت موجود تھی کہ اگر وہ کھلم کھلا دوبارہ بیت المقدس پہ فوج کے ساتھ چڑھائی کرتے تو اسے دوبارہ عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑتا۔۔مگر یہ اسلامی ریاستیں زیادہ دیر ان بحرانوں کا سامنا نا کر پاتی نظر آرہی تھیں کہ اسی دوران ان علاقوں میں مسلمانوں پہ قدرت کی طرف سے ایک اور بڑی آزمائش منگول کی صورت میں آپہنچی۔

۔۔
جس کی وجہ سے ان مسلم ریاستوں کا خاتمہ ہوا۔۔۔ اگر ہمیں اس علاقہ میں کوئی ان دونوں بڑی کفریہ طاقتوں منگول اور صلیبیوں سے مزاحمت کرتا دیکھائی دیا تو وہ ارطغرل غازی اور اسکا قائی قبیلہ ہی تھا۔۔۔جو بظاھر ایک خانہ بدوش تھے مگر جزبہ ایمانی اور اسلامی و قبائلی روایات انکے اندر زندہ تھی، جس کی بدولت قدرت نے انہیں بیشمار فتوحات اور انعامات سے نوازا۔

۔۔غرض یہ کہ قبیلہ صلیبیوں اور منگولوں کے خلاف اپنی جدوجہد ارطغرل غازی کی قیادت میں جاری رکھے ہوئے تھا۔۔۔اور قدرت بھی انہیں فتوحات سے نوازتی رہی یہاں تک کے جب سلجوق سلطنت بلکل منگولوں کے قبضہ میں چلی گئی تو اسی قبیلہ نے جو اس وقت تک اپنی بیشمار فتوحات کرچکا تھا اور کئی صلیبی قلعے بھی فتح کرچکا اسنے اپنی نئی ریاست کا اعلان کردیا۔

۔۔
اس وقت قائیوں کا سردار ارطغرل غازی کی وفات کے بعد اسکا سب سے چھوٹا بیٹا عثمان تھا۔۔۔ اس ریاست نے دفاع کے بجائے اقدامی جہاد کیا اور کفر کو سبق سیکھاتے رہے۔۔۔ آگے جاکر اسی ریاست کا نام ارطغرل کے بیٹے عثمان کے نام پہ سلطنت عثمانیہ رکھا گیا جو کئی سالوں اپنے اقدامی جہاد کو جاری و ساری رکھے ہوئے تھی۔۔۔
صلیبی اب بیت المقدس دور کی بات اپنی زمینوں کی حفاظت نا کرپائے۔

۔۔ اورقدرت نے انہی چند ہزار افراد پہ مشتمل قائی قبیلہ کی سلطنت عثمانیہ کو تین براعظموں میں صدیوں تک حکمرانی نصیب فرمائی۔۔۔ سلطنت عثمانیہ نے بیک وقت حرم پاک اور القدس کی میزبانی کا شرف پایا۔ اور اسکی نئی تعمیرات اور وسعت میں اضافہ کرتے رہے۔۔۔
بلاآخر ہر چیز کا زوال ہے اور اس سلطنت کے زوال کا وقت بھی آپہنچا۔۔۔ کئی صدیوں تک دنیا میں حکمرانی کرنی والی یہ سلطنت پھر سے کفر کی سازشوں سے کمزور پڑنے لگی۔

۔۔
اتنے عرصہ بیت المقدس خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا اور اسی کی وجہ سے صلیبیوں میں ہمت نا رہی اسکوں دوبارہ اپنے قبضہ میں لینے کی۔ اس پہ ایک نعرہ بہت مشہور زمانہ رہا جو آسٹریا کے بادشاہ سیگمونڈ کی جانب سے لگایا گیا تھا۔۔۔
''پہلے ترکوں کو کچل ڈالو۔۔۔اسکے بعد القدس پر قبضہ کرو''
صلیبیوں نے ہمیشہ اسلام مخالف سازشیں ہی کی۔

۔۔ اور انکا مین ہتھیار ہی سازشیں کرنا تھا جس سے انہوں نے آخر کار اپنی کامیابی بھی حاصل کی۔۔۔یہ سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کا دور تھا سلطنت انہی سازشوں کی وجہ سے کمزور ہوچکی تھی۔۔۔کفر کی سازشیں اور مسلم مخالف تنظیمیں خلافت کے خاتمہ کیلئے کام کر رہی تھی۔۔۔ وہ جانتے تھے جب تک انکے اتحاد یعنی خلافت کو ختم نا کیا جائے ہم دوبارہ بیت المقدس پہ قبضہ نہیں کرسکتے۔

۔۔
یہاں سلطان عبدالحمید کے آخری دنوں کا ایک مشہور واقع کا ذکر لازمی ہے جسکی وجہ سے سلطان عبدالحمید کو برطرف کر کے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا۔۔۔جس کا ذکر بعد میں خود سلطان عبدالحمید نے اپنی یاداشت میں کیا۔۔۔یہودیوں کی ایک عالمی تنظیم کا وفد انکے پاس آیا اور ان سے فلسطین میں آباد ہونے کی درخواست کی۔۔۔
یہ اجازت اس لئے لینے آئے تھے کہ سلطنت عثمانیہ کے قانون کے مطابق یہودی صرف بیت المقدس زیارت کیلئے آسکتے تھے۔

وہاں زمین خریدنے اور رہائش اختیار کرنے کی اجازت نا تھی۔۔۔ سلطان یہودیوں کے عالمی ایجنڈہ کو بھانپ چکے تھے۔ جسکے مطابق یہودی فلسطین میں جمع ہوکر اسرائیل کی بنیاد رکھنے اور بیت المقدس پہ قبضہ کرکے مسجد اقصٰی کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جسکے نتیجہ میں وہ پوری دنیا کے یہودیوں کو ایک جگہ اکٹھا کرتے اور عالمی ریاست قائم کرنے کیلئے راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔

۔۔
سلطان نے انکو انکار کر دیا۔ سلطان اپنے یاداشت میں لکھتے ہیں کہ دوسری بار پھر وہی یہودی وفد آیا اور اس نے سلطنت عثمانیہ کیلئے ایک بڑی یونیورسٹی بنانے کی پیشکش کی۔ اور کہا ہم سلطنت کیلئے ایک ایسی بڑی یونیورسٹی بنانے کیلئے تیار ہیں جس میں تمام یہودی سائنسدانوں کو اکٹھا کیا جائے گا جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں سلطنت کی مدد کرے گے لہٰذا انہیں فلسطین میں ایک جگہ فراہم کی جائے۔

سلطان جو انکے منصوبے سے واقف تھے انہوں نے کہا میں جگہ فراہم کرنے اور ممکنہ سہولیات دینے کو تیار ہوں مگر یہ فلسطین کے علاوہ ہوگی فلسطین میں نہیں۔ظاہر ہے یہودیوں کو یہ قبول نا تھا انہوں نے انکار کر دیا۔۔۔سلطان کی یاداشت میں لکھا ہوا ہے کہ
یہ یہودی وفد تیسری بار پھر سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک مخصوص تعداد میں یہودیوں کو فلسطین میں رہنے کیلئے اجازت طلب کی جس پہ سلطان نے اپنے غصہ اور غیض وغضب کا اظہار کیا اور انہیں فوراً وہاں سے نکل جانے کا کہہ دیا گیا اور آئیندہ ملاقات نا کروانے کا حکم دے دیا۔

۔۔
یہی وہ وقت تھا جس کے بعد استنبول میں موجود یہودی تنظیموں نے سلطان کے خلاف مختلف الزامات لگاتے ہوئے ایک سیاسی تحریک کا آغاز کیا جس کے نتیجہ میں بلاآخر سلطان اپنی خلافت سے ہٹا دیے گے۔۔۔
اور کچھ ہی سالوں بعد 1923 میں خلافت کا باقاعدہ خاتمہ ہوگیا۔۔۔اور یہودیوں کو برطانیہ کی سرپرستی میں فلسطین میں اپنی جگہ بنانے کا موقع مل گیا۔

شروع میں یہودیوں نے مسلمانوں سے جگہ کی دگنی قیمتیں دیتے ہوئے حاصل کرتے رہے۔
اور آہستہ آہستہ اپنی آبادی اتنی کرلی کے فلسطین سے ایک الگ ریاست کا اعلان کردیا۔۔۔ جسے قائم ہوئے تقریباً 72 سال گزر چکے۔۔۔ اور آج فلسطین میں مسلم کی تعداد کم اور یہود آباد کاری زیادہ ہے۔۔۔ اور انکے فلسطینیوں پہ ظلم و ستم پھر سے کسی مسلم اتحاد اور خلافت کے قیام کو پکار رہے ہیں۔

۔۔بیت المقدس کو 88 سال بعد صلیبیوں سے سلطان صلاح الدین نے آزاد کروایا تھا۔۔۔اور اب اسرائیل کے وجود کو تقریباً 72 سال ہوگے اللہ پاک اب کی بار بھی شائد 88 سال کے اندر مسلمانوں کو دوبارہ اسکی فتح نصیب فرمائے۔۔۔ اس کا واحد حل خلافت ہے مسلم امہ میں اتحاد ہے، کیوں کہ تاریخ گواہ ہے مسلم صفحوں میں جب بھی اتحاد قائم ہوا پھر دنیا کی کوئی طاقت انکا مقابلہ نا کر سکی۔

۔۔اللہ پاک ہمیں پھر سے اس نعمت سے نوازے تاکہ فلسطین اور کشمیر سمیت دنیا میں تمام مسلمانوں کی داد رسی ہوسکے۔۔۔آمین
کیا ہی وہ زمانہ گزرا، جب ہم بھی تھے ایک
سوچ ایک۔۔۔ ایمان ایک۔۔۔ جزبہ جہاد ایک

جب سے چھوڑا جہاد جو تھا حکم خدا
بٹ گے اپنی اپنی زمیں کے ٹکڑوں میں بخدا
ہے یقین اُس زمین پہ رہنے والوں کا آج بھی
آئے گا کوئی کروائے گا آزاد خدا کی وہ زمیں
وہ قبلہ اول جس نے بخشا نبی کو رتبہ امام الانبیاء 
ہم کیسے بھول بیٹھے اسے جو بنا معراج الانبیاء 
سلام میرا اُس عرض وطن کے باسیوں کو
نسل در نسل رکھا تر و تازہ اپنے خون سے بیت المقدس کو
بیت المقدس ہے تیرتا آج بھی انکے خون کی ندی میں
پھر بھی وہ کر رہے جہد مسلسل اسی خون کی وادی میں
وہ رکے نا جھکے اپنی ان روایات سے 
مگر امہ کہاں ہوگئی گم۔

۔۔۔کب نکلے گی اپنی خرافات سے
اے ایمان والو جاگو خدارا بہت سوئے ہو تم
 غزہ آج بھی پکار رہا ہے، کہاں کھوئے ہو تم 
ہے ایمان میرا۔۔۔۔ ہے یقین میرا
ہوں گر متحد ہم، تو یہ کشمیر و فلسطین میرا
آؤ پھر سے اپنے اسلاف کی مقدس راہ پہ چلیں
کریں نفاز خدا کا قانون۔۔۔ راہ جہاد پہ چلیں
جمالی#۔۔۔۔!!! کب تک دوڑو گے خدا کے اس حکم سے 
آؤ۔۔۔!!! دنیا و آخرت سنوار لیں خدا کے امر سے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :