اسلاموفوبیا

پیر 25 نومبر 2019

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے جیسے جیسے انسان میں شعور بڑھتا جا رہا ہے وہ اسلام کی سچائی کو سمجھتا جا رہا ہے، اہلِ مغرب اسی خوف میں مبتلا ہیں کہ اسلام آگے آگیا تو ہم پیچھے رہ جائیں گے ۔ حالانکہ ان کو ہماری تاریخ کا بھی پتہ ہے کہ جب مسلمانوں پر عروج تھا تو کسی غیر مذہب اور غیر مسلم کے مذہبی حقوق سلب نہیں کیے گئے ، مسلمانوں نے آدھی سے زائد دنیا پر حکومت کی مگر کسی بھی دوسرے مذہب کی کتاب یا عبادت خانے پر حملہ یا گستاخی نہیں کی۔

یہ یہودی ، عیسائی اور دوسرے کافر اپنے بڑوں کی تاریخ پڑھ لیتے تو انہیں اسلام اور مسلمانوں کے ان احسانات کا علم ہو جاتا جو مسلمانوں نے اپنے عروج میں ان پر کیے ۔اسلام کی ابتداء میں ہمارے نبی کریم ﷺکی بارگاہ اقدس میں ایک یہودی اور مسلمان کا فیصلہ آیا تو انہوں نے انصاف پر فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا ،ان کافروں کے بڑے ہمارے نبی کریم محسن انسانیت ﷺ کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے رہے ۔

(جاری ہے)

اسلام کی ابتداء حضرت محمد ﷺ سے ہوئی وہ بانی اسلام ہیں اللہ کے حکم سے انہوں نے اسلام کی تبلیغ کی ، اس دور کے کافر اور آج کے کافروں کے بڑے بھی حضور ﷺکو صادق اور امین مانتے بھی رہے اور اقرار بھی کرتے رہے ۔ یہ گستاخانہ حرکتیں اور بے ادبی کرنے سے پہلے اپنے بڑوں کی ہی تاریخ کا مطالعہ کر لیتے ۔ آج خاکے چھاپنے اور بے ادبی کرنے والے اس وقت ہمارے نبی ﷺ کو مناظرے کا چیلنج کر کے بھاگ گئے اگر حضورﷺ دعا کر دیتے تو دنیا میں عیسائیت ختم ہو جاتی مگر محسن کائنات رحمةاللعالمین نے عیسائیت کو جلا بخشی ، آج اگر دنیا میں عیسائی ہیں تو یہ اسلام کے احسان کی بدولت ہیں ۔

یہ کفار اسلاموفوبیا کی دلدل سے نکل آئیں اور حقائق کا مطالعہ کریں ۔مسلمان اپنے اعمال کی وجہ سے رو بہ زوال ہو گئے لیکن اسلام ہمیشہ سربلند تھا اور ہمیشہ رہے گا ، یہ کم ظرف کفار نے عارضی دنیاوی عروج پایا تو اپنی اوقات پر اتر آئے کبھی قرآن پر گستاخانہ فلمیں بناتے ہیں کبھی گستاخانہ خاکے اور کبھی سرعام قرآن پاک کو آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

یہ آزادی اظہار رائے کی حدود و قیود کا تعین کرنا ہو گا ، یہ آزادی اظہار رائے صرف مسلمانوں کے مذہب کے خلاف ہی کیوں استعمال ہو رہی ہے ۔ کیا آج تک کسی اور مذہب پر دہشتگردی کا ٹھپہ لگا کر اس کے ماننے والوں پر زمین تنگ کی گئی اور طرح طرح کی پابندیاں لگائی گئیں ؟کیا کسی اور مذہب کے بانی کے گستاخانہ خاکے چھاپے گئے یا کسی اور کی مذہبی کتاب کو یوں سرعام آگ لگائی گئی ؟ یہ آزادی اظہار رائے کا گستاخانہ استعمال صرف مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں استعمال ہو رہا ہے ؟ یہ دہشتگردی کا کارڈ صرف اسلام کے خلاف ہی کیوں استعمال کیا جا رہا ہے ؟ ناروے میں قرآن پاک کی بے ادبی سے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی مگر مسلمانوں کے حقوق کیلئے بنائی گئی عالمی تنظیم او آئی سی کی مبینہ خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے ، اگر او آئی سی قرآن کی بے حرمتی پر بھی کچھ نہیں بول سکتی تو اس تنظیم کو پھر بند کر دینا چاہئے۔

پوری دنیا میں تقریباً 57اسلامی ممالک ہیں مگر کیا یہ ستاون ممالک مل کر اپنے مذہبی تحفظ کیلئے ایک بھی عالمی قانون نہیں بنوا سکتے ؟یہ کب تک مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رہیں گے ؟ اسلامی ممالک کے سربراہان سے سوال ہے کہ کل روز محشر کو کس منہ سے اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو گے ،کیسے کہوگے کہ حضور ﷺکی ناموس کا کفار مذاق اڑاتے رہے اور ہم خاموش رہے ، اللہ کی کتاب کو سرعام جلایا گیا اور ہم خاموش رہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :