تجدید عہد وفا کا دن

منگل 23 مارچ 2021

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

23 مارچ قرارداد پاکستان کی منظوری کا دن تھا، لیکن یہ صرف کاغذی قرارداد نہیں تھی بلکہ اس قرارداد میں ہمارے بڑوں کی بے شمار اور لازوال قربانیاں چھپی تھیں۔ اور یہ قرارداد ان قربانیوں کا ثمر تھی جو تحریک پاکستان کی جدوجہد میں ہمارے بزرگوں نے دی تھیں۔ یہ دن ان قربانیوں، کوششوں اور اس کے نتیجے میں ملنے والے پیارے ملک سے عہد وفا کا دن ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ گزشتہ ستر برس میں ہم نے ان وفاؤں کا صلہ کیا دیا؟ ہمارے بزرگوں نے غلامی کی زنجیروں کو گلے کٹوا کر توڑا اور ایک آزاد ملک ہمارے لیے حاصل کیا۔ اور آج اسی ملک میں ہم مختلف فرقوں، طبقوں اور لسانیت میں بٹے پڑے ہیں۔ ہماری ہر چیز میں بٹوارہ ہوا پڑا ہے اس میں مذہب، سیاست اور جب سے لبرل ازم عام ہوئے ہیں معاشرت میں تفریق ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

ہم کسی پہلو میں بھی ایک نظر نہیں آتے، کسی مسجد میں جانے سے پہلے باہر لگی تختی دیکھتے ہیں کہ میرے فرقے کی ہے یا نہیں، ووٹ دینے کیلئے ملکی مفاد کی بجائے شخصیت پسندی اور سیاسی جماعتیں دیکھتے ہیں کہ یہ میری پارٹی ہے۔ ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس بیان سے روگردانی کر رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اب ہمیں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان کی اصطلاحات میں بات نہیں کرنی بلکہ آج سے ہم صرف پاکستانی ہیں۔

ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے لیکن پھر بھی ہم بطور قوم سب سے پیچھے رہ گئے کیونکہ ہم نے آج تک ایک قوم بن کر آگے بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس ملک کے صدقے اللہ نے بہت سے لوگوں کو اقتدار بخشا، بادشاہت عطا کی مگر اس اقتدار پر جو بھی براجمان ہوا اس نے حسب توفیق اس ملک کو لوٹا ہی ہے۔ کسی ایک پارٹی یا فرد کا نہیں بلکہ یہاں تو جو بھی آیا وہ چاہے ڈکیٹیٹر ہو، سیاستدان ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا بیوروکریسی ہو جس کو جتنی توفیق ملی اس نے اتنا ہی قومی خزانے کو لوٹا اس غریب عوام پر رحم نہیں کیا۔

عہد وفا میں ایک ارادہ یہ بھی تو تھا کہ ہم اس ملک کی حفاظت کرینگے، محسن پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبال نے تو اپنی شاعری کے ذریعے پیغام بھی دیا تھا کہ بچوں ہم تمہارے لیے بڑے طوفانوں سے لڑ کر یہ کشتی نکال کر لائیں اب تم اس کی حفاظت کرنا۔ آج کسی بزرگ سے تحریک پاکستان کا پوچھیں تو وہ دھاڑے مار مار رونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم لوگ یہ دن ہنسی خوشی منا لیتے ہو مگر ہمیں جب وہ وقت یاد آتا ہے تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہولناک مناظر آنے لگتے ہیں جب لوگوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بچیوں کے گلے دبا دیے، اپنے بچوں کو نہر میں پھینک دیا۔

یہ وہ بچے تھے جنہوں نے ابھی مزید جینا تھا مگر انہوں نے اپنا کل ہمارے آج پر قربان دیا۔ آج پاکستان میں تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے، پہلی نسل نے خود کو قربان کر کے ہمارے لیے آزاد ملک حاصل کیا اور ہم آج اپنے ہی ملک میں پانی کی ٹینکی کے ساتھ پڑے گلاس کو رسی سے آزاد نہ کروا سکے۔ کل کے نوجوان نے ہمیں پورا ملک اصولوں اور نظریات پر فتح کر کے دے دیا اور آج کا نوجوان مغربی ایجادات کی ستم ظریفیوں میں کھو کر فخر محسوس کرتا ہے۔

آج کا نوجوان اس راستے سے بھٹکا نظر آتا ہے جس کی ساری سختیاں جھیل کر ہمارے بزرگوں نے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ ہم ان مقاصد سے ابھی بھی بہت دور ہیں جن کی بنیاد پر ہمیں یہ آزاد اور خود مختار ریاست ملی۔ ہم عہد وفا کا دن تو منا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم عہد وفا نبھا بھی رہے ہیں؟ عہد وفا کا دن تب ہی کہلائے گا جب اس ملک کو حقیقی ترقی جانب گامزن کرینگے اور حقیقی ترقی تب ہی شروع ہو گی جب اس ملک کا نوجوان تعلیم سے واقف ہو گا، جب شرح خواندگی بڑھے گی۔

جب غریب کو دو وقت کی روٹی عزت کے ساتھ ملنا شروع ہو جائے گی، جب ظلم و جبر کا خاتمہ ہو گا اور قانون کا بول بالا ہو گا۔ جب لیڈر اس ملک میں اپنے مفادات کی خاطر نہیں بلکہ ملک کی بقا کی خاطر طرز حکمرانی اپنائیں گے۔ تب ہم کہہ سکیں گے کہ ہم عہد وفا کا دن منانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم صرف ایک تاریخ مناتے ہیں دن منانے تک تو ابھی ہم پہنچے ہی نہیں، دن منانے کیلئے ہمیں اس نظریے پر چلنا ہو گا جس کی خاطر ہمارے بڑوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ جب تک ہم اس مقصد کو نہیں پا لیتے تب تک ہم عظیم قوم نہیں بن سکتے، اور نہ ہی تب تک اس ملک کا نظریہ کامل ہو سکتا ہے۔ نظریہ سوچ سے بنتا ہے اور قوموں کا کردار اسے عملی جامہ پہناتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :