من حیث القوم

جمعہ 21 جنوری 2022

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

بحیثیت قوم ہم اخلاقی گراوٹ کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ بری چیزوں پر تنقید ساتھ ساتھ اچھی چیزوں سے بھی کیڑے نکالنے شروع کر دیے ہیں۔ حال ہی میں کوک اسٹوڈیو کی ریکارڈنگ کے دوران ملک کی معروف گلوکارہ عابدہ پروین اور نصیبو لال کی ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں عابدہ پروین عاجزی اور انکساری کے ساتھ بدنام گانوں سے شہرت پانے والی نصیبو لال سے ملی۔

تو سوشل میڈیا گینگ کے ہتھے چڑھ گئیں ہر کوئی سوال اٹھانے لگا کہ عابدہ پروین آخر اس عورت کو اتنے احترام سے کیوں ملیں؟ یہ تو عابدہ پروین کا بڑا پن تھا کہ اپنے کئی گنا چھوٹے درجے کی گلوکارہ سے اتنے احترام سے ملی جس کا شاید نصیبو لال نے تصور بھی نہ کیا ہو گا۔ بلکہ وڈیو سے واضح محسوس کیا جا سکتا ہے کہ نصیبو لال خود سکتے میں تھی کہ اتنی بڑی انسان آخر اسے ایسا احترام کیوں دے رہی ہے۔

(جاری ہے)

بات صرف یہاں تک نہ رکی لوگوں کے ردعمل سے تنگ آ کر ایک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عابدہ پروین تک پہنچا اور یہی سوال کر دیا کہ آپ نصیبو لال سے اتنے احترام اور عاجزی سے کیوں ملیں لوگ جاننا چاہتے ہیں جس جواب اس درویش صفت عورت کے پاس بھی نہیں تھا اور یہ ایسے بے مقصد سوال زار و قطار رونے لگ گئیں اور بتایا کہ میری ماں نے میری تربیت ہی ایسے کی ہے۔

اور روتے ہوئے اپنی عاجزی کی وجہ اور نسبت بتانے لگی اور زور زور سے رونے لگیں۔ اس بے تکے سوال کے جواب میں عابدہ پروین کے صرف آنسو ہی تھے اور یہ سوال کرنے والے ان آنسوؤں کے آگے لاجواب ہو گئے اور شاید دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہوئے ہونگے۔ مگر اس رویے سے ہماری ترجیحات کا پتہ چلتا ہے کچھ دن پہلے ہی مری میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی جہاں بے گناہ لوگ اور معصوم بچے مری کی برفباری دیکھنے کے شوق میں موت کی نیند سو گئے اور ہمارے لیے سب سے بڑا مسلہ رہا کہ عابدہ پروین نصیبو لال کو اتنے ادب سے کیوں ملیں۔

مری میں بڑا حادثہ یہ نہیں تھا کہ وہاں لوگ مر رہے تھے بلکہ سب سے بڑا حادثہ یہ تھا کہ وہاں کے مقامی لوگوں، انتظامیہ اور حکومت کی بے حسی کی وجہ سے لوگ مر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس روز ملکی معیشت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی، مری کے کاروباری حضرات اپنے کاروبار میں مصروف تھے ایک کمرے کا کرایہ تیس ہزار اور ایک چائے کا کپ تین سو روپے کا تھا۔

جو ہوٹلوں کے مالک تھے وہ پیسے گن رہے تھے، جو انتظامیہ اور حکومتی نمائندے تھے وہ گاڑیاں گن رہے تھے اور جو بے چارے لوگ پھنسے ہوئے تھے وہ موت سے لڑتے ہوئے اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔ بحیثیت قوم ہم اتنے خود غرض تو کبھی نہ تھے جتنے اب ہو گئے ہیں، بے شرمی کی انتہا دیکھیں مری میں پھنسے لوگوں کی گاڑیوں دھکا لگانے کے بھی پیسے لیے جا رہے تھے، اور گاڑیوں کے حساب سے قیمتیں بھی مقرر کر رکھی تھیں کہ چھوٹی گاڑی کو دھکا لگانے کا تین ہزار اور بڑی گاڑی کو دھکا لگانے کا پانچ ہزار لیا جا رہا تھا۔

ہمارا یہ خود غرض رویہ پہلی بار سامنے نہیں آیا اس سے پہلے بھی کئی بار ہم بحیثیت قوم اپنی گری ہوئی سوچ دکھا چکے ہیں، جب کورونا کے وار تیز ہوئے تو ڈاکٹرز نے شہریوں کو ماسک اور سنیٹائزر کے استعمال کا مشورہ دیا۔ تو ہم نے ماسک اور سنیٹائزر مہنگے کر دیے اسی طرح چینی کی قلت پیدا ہوئی تو چینی کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ آٹے کا بحران شروع ہوا تو آٹے کی قیمت دگنی ہو گئی آخر یہ ہم لوگ ہی ہیں جو لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔

ہم یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ اللّٰہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد انسانیت کے ساتھ صلح رحمی کرنا تھا، اسلام نے ہمیں آپس میں بھائی بھائی کا مقدس درجہ دیا تھا اور آج ایک بھائی دوسرے کی مشکلات سے اپنا مفاد نکال رہا ہے۔ من حیث القوم ہم اپنی احساس زمہ داریوں سے منحرف ہو چکے ہیں، احساس اور ہمدردی وہ واحد چیز ہے جو ہمیں دوسری تہذیبوں اور معاشروں سے مختلف بناتی ہے مگر آج ہماری اخلاقی اقدار اتنی گر چکی ہیں کہ کفر کے معاشرے اپنی روایات اور قانونی بالادستی کی بنا پر ہم سے بہتر نظر آتے ہیں۔

یہ لکھتے ہوئے بھی افسوس ہو رہا ہے کہ ہمیں آج یہ کیا لکھنا پڑ رہا ہے کہ کل تک تو وہ ہم سے سیکھتے ہیں اور آج ہم ہی ان کو خود سے بہتر کہنے مجبور ہیں اور وجہ صرف ہماری خود غرضی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :